ملا عبدالسلام بریالی شہید کی زندگی اور کارناموں کا جائزہ

تحریر: قاری عبدالستار سعید رواں سال مارچ میں امارت اسلامیہ کے سینئر رہنما اور صوبہ قندوز کے گورنر ملا عبدالسلام بریالی امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے ۔ ملا عبد السلام کا شمار ان سینئر اور اہم جہادی شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے زندگی بھر پہلے فساد اور پھر […]

تحریر: قاری عبدالستار سعید

رواں سال مارچ میں امارت اسلامیہ کے سینئر رہنما اور صوبہ قندوز کے گورنر ملا عبدالسلام بریالی امریکی ڈرون حملے میں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے ۔

ملا عبد السلام کا شمار ان سینئر اور اہم جہادی شخصیات میں ہوتا تھا جنہوں نے زندگی بھر پہلے فساد اور پھر امریکی یلغار کے خلاف جہاد کیا ،ان کی شہادت کے بعد ہر سطح پر مختلف حلقوں کی جانب سے بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا، امارت اسلامیہ نے خصوصی اعلامیہ جاری کیا ،سوشل میڈیا پر ان کی شہادت کے حوالے سے خصوصی مضامین ، تعزیتی پیغامات اور مقالے شائع ہوئے ، قندوز کے علاوہ مختلف علاقوں میں فاتحہ خوانی اور تعزیتی اجتماعات منعقد ہوئے ، دشمن نے ان کی شہادت کے بارے میں اعلی سطح پر اظہار خیال کیا اور اس سلسلے میں اشرف غنی نے فوجیوں کی ایک تقریب سے خطاب کے دوران ان کا ذکر کیا اور انہیں طالبان کے ایک اہم رہنما قرار دیا اور بعدازاں امریکہ کے اعلی فوجی کمانڈر جنرل نکلسن نے ملا عبدالسلام کی شہادت کے سانحہ کو اپنے لئے اہم کامیابی قرار دیا ۔

درج ذیل سطور میں جہادی تحریک کے روح رواں اور بہادر غازی کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہیں اور ملا عبد السلام بریالی شہید کی شخصیت کے بارے میں چند حقائق طشت ازبام کریں گے۔

ملا عبدالسلام بریالی شہید

ملا عبدالسلام ولد محمد سرور نے سن 1355 ہجری میں صوبہ قندوز ضلع دشت آرچی کے سرفراز تیپہ گاؤں میں ایک نیک اور پارسا خاندان میں آنکھ کھولی ،ابھی وہ بہت کم سن تھے کہ افغانستان پر سوویت یونین نے فوج کشی کی اور ملک بھر میں روسی یلغار کے خلاف جہاد شروع ہوا ، ملا عبدالسلام کے خاندان نے بھی دیگر لاکھوں افغان عوام کی طرح ملک کی جنوبی سرحد کی طرف ہجرت کر کے بلوچستان کے علاقہ جنگل پیر علیزئی کے ایک مہاجر کیمپ میں آباد ہوگئے ۔

ملا عبد السلام اخوند وہاں ہجرت کے ماحول میں جوان ہوئے، ابتدائی عصری تعلیم اور بعد ازاں دینی علوم کے حصول کے لئے کمر کس لی ، ابھی تک حصول علم سے پوری طرح فیض یاب نہیں ہوئے تھے کہ افغانستان میں فساد ، لاقانونیت اور افراتفری کے خلاف طالبان کی اسلامی تحریک کا آغاز ہوا، ملا عبدالسلام نے حصول علم کا سلسلہ درمیان میں چھوڑ دیا اور نوخیز نوجوانی کی عمر میں [اس وقت ان کے چہرے پر داڑھی کے صرف آثار نظر آرہے تھے] طالبان کی اسلامی تحریک کے ساتھ منسلک ہوگئے۔

طالبان اسلامی تحریک میں ایک فرد کی حیثیت سے

مولوی محمد رحیم کہتے ہیں :جس وقت طالبان نے قندھار اور ہلمند کے لشکر گاہ کو فتح کیا تھا لیکن ہلمند کے شمالی اضلاع موسی قلعہ اور کجکی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر رہے تھے اس وقت پہلی بار ملا عبدالسلام کو دیکھا جو بعد ازاں قندہار سے ہلمند کے ضلع موسی قلعہ کے طرف روانہ ہوئے، ملا عبدالسلام اخند ایک بہادر مجاہد تھے جہاد سے ان کا دلی لگاو تھا ، طالبان اسلامی تحریک کے ابتدائی دور میں وہ مولوی عبد العلی صاحب کے ہمراہ تھے ،ہلمند کو فتح کرنے کے بعد وہ صوبہ میدان وردگ اس کے بعد صوبہ لوگر گئے ، کچھ عرصہ بعد کابل کے جنوبی علاقے ریشخورو میں جہادی خدمات انجام دیں اور اس کے بعد کابل فتح ہونے تک میدان شہر کے علاقہ کوہ قرغ میں جہادی خدمت میں مصروف تھے ۔

کابل کی فتح کے بعد وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خیرخانہ درہ کے قریب سولہویں ڈویژن میں خدمات انجام دیتے تھے ،بعد ازاں شمالی محاذ پر گئے ، ملا عبدالسلام ایک لمبے عرصے تک قرا باغ اور کلکان کی دفاعی لائنوں میں خدمات انجام دیتے رہے ، جبل السراج اور گلبہار پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد طالبان نے وادی پنجشیر کے علاقہ دالان سنگ میں فرنٹ لائن کے مورچے قائم کئے ، ملا عبد السلام اخوند بھی یہاں ایک سنگلاخ پہاڑی علاقے میں جہادی خدمات انجام دینے میں مصروف ہوئے لیکن ایک دن شدید لڑائی کے دوران زخمی ہوئے اور علاج کے لیے انہیں علاقے سے منتقل کر دیا گیا ۔

صحت یابی کے بعد ایک بار پھر شمالی علاقوں میں فرنٹ لائن کا رخ کیا ،جب شمالی صوبوں میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا تو موصوف صوبہ سمنگان تشریف لے گئے ، امریکی حملے سے آٹھ ماہ قبل وہاں سے پلخمری گئے اور یہاں سے تخار میں بھی جہادی کارروائیوں کی ذمہ داری انجام دینے کے لئے جاتے تھے ، موصوف امریکی یلغار کے وقت تک وہاں خدمات انجام دینے میں مصروف تھے ۔

قندوز کا محاصرہ اور شبرغان جیل

ملا عبدالسلام اخند بھی دیگر ہزاروں مجاہدین کی طرح امریکی یلغار کے دوران قندوز میں محاصرہ ہوگئے ، اس وقت وہ ہر طرف سے گھیرے میں لئے گئے تھے اور اوپر سے وحشیانہ بمباری شروع تھی ،ایک بہت مشکل دور تھا ، اس دوران کچھ ساتھیوں نے ذاتی رابطوں کی بناء پر ناکہ بندی سے خود کو بچانے کی کوشش کی اور انہیں بھی اس کی پیشکش کی لیکن انہوں نے جواب دیا کہ میں کس طرح ایک طویل وقت کے اپنے دوستوں اور نابلد مہاجر مجاہدین کو ایسا ہی چھوڑ دوں اور اپنی زندگی بچانے کی کوشش کروں ،حالانکہ قندوز ان کا اپنا صوبہ تھا اور وہ بڑی آسانی سے دوستم کے کنٹینر اور جیل سے خود کو بچا سکتے تھے مگر انہوں نے اس مشکل دور میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وفاداری نبھائی اور وہی راستہ اختیار کیا جس پر تمام مجاہدین نے مشاورت کے بعد اتفاق کیا تھا ۔

ملا عبدالسلام اخند بھی دیگر ہزاروں مجاہدین کے ہمراہ معاہدے کے تحت مزار شریف کی طرف روانہ ہوئے لیکن دوستم نے ان کے ساتھ تاریخی غداری کی ، انہیں محفوظ راستہ دینے کے بجائے کنٹینرز میں ڈال دیا جن میں ہزاروں مجاہدین شہید ہوگئے جبکہ ملا عبدالسلام اخند کے اکثر ساتھی شہید ہوگئے تھے اور انہیں بے ہوشی کی حالت میں کنٹینر سے زندہ نکال دیا گیا تھا ۔

بعد ازاں انہوں نے آٹھ ماہ شبرغان جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، یہ جیل ظلم اور بربریت کے نام سے مشہور اور بدنام تھا کیونکہ اس جیل میں مظلوم قیدیوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جاتے تھے ، ملا محمد رحیم اخوند نے اس وقت ان کی رہائی کے لئے بہت کوششیں کیں اور بالآخر بھاری رقم دیکر انہیں بدنام زمانہ جیل سے رہا کردیا ، ملا محمد رحیم کہتے ہیں کہ جب وہ جیل سے رہا ہوگئے تو انہوں نے سب سے پہلے مجھے یہ بات کہی کہ آپ یہاں کچھ واقف ہوگئے ہیں اور قیدیوں کی رہائی کا طریقہ کار سمجھتے ہیں ، یہاں بہت غریب مجاہدین قیدی ہیں ،میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ یہاں رہ کر مجاہدین کی رہائی کے لئے کوششیں تیز کریں ، میں جا کر جس طریقے سے بھی ممکن ہو ،آپ کو پیسے بھیج دوں گا تاکہ دیگر قیدی مجاہدین کو بھی رہا کیا جاسکے ۔

امریکیوں کے خلاف دوبارہ جہاد شروع کر دیا

شبرغان جیل سے رہائی کے بعد انہوں نے جنوبی افغانستان کا رخ کیا، کچھ عرصہ ہرانے یونٹ میں جہادی خدمات انجام دیں اور بعد ازاں امارت اسلامیہ نے ان کے لئے علیحدہ جہادی یونٹ کی منظوری دے دی جس کے وہ  سربراہ مقرر کئے گئے ۔

اس مرحلے میں قندھار کے سپین بولدک، معروف اور دیگر علاقوں میں حافظ عبدالرحیم شہید نے جہادی کارروائیوں کا آغاز کیا ،ملا عبد السلام اخند نے بھی ان جہاد کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا ،انہوں نے ضلع معروف ،ارغسان اور صوبہ زابل کے مختلف علاقوں میں جہادی کارروائیوں میں شرکت کی، جب مجاہدین نے قندھار کے ضلع پنجوائی اور ژڑی میں آپریشن شروع کر دیا تو موصوف بھی کئی بار پاشمول گئے اور جہادی حملوں میں حصہ لیا ، ملا عبدالسلام اخند جذبہ جہاد سے سرشار تھے اور سامراجی قوتوں کے خلاف جہاد کو اپنا ایمانی فریضہ سمجھتےتھے ، جہاں بھی جہادی کارروائیاں ہوتی تھیں تو وہ وہاں پہنچ کر شرکت کرنے کی کوشش کرتے تھے ،اس سلسلے میں انہوں نے قاری فیض محمد سجاد شہید، ملا شہزادہ آخوند شہید اور کئی دیگر جہادی کمانڈروں کے ساتھ ملک کے جنوبی صوبوں کی جہادی کارروائیوں  میں شرکت کی ہے ۔

2004 کے اواخر میں ملا عبدالسلام اخوند امارت اسلامیہ کی قیادت کی جانب سے صوبہ قندوز کے معاون کے طور پر تعینات کیا گیا تو انہوں نے اپنے قریبی دوست ملا جانان اخوند شہید کے ہمراہ قندوز کا دورہ کیا، اس وقت قندوز میں جہادی کاروائی کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی تھی ، وہ ضلع علی آباد میں ملا غازی کے گھر گئے ، وہ بھی ان کے ہمراہ ہوگئے اور ابتدائی طور پر مساجد کے پیش اماموں سے ملاقاتیں کیں اور لوگوں کو جہاد کی دعوت دی ،کچھ عرصہ بعد ملا عبد السلام اخند کو امارت اسلامیہ کی جانب سے صوبہ قندوز کے کمانڈر کے طور پر مقرر کیا گیا ۔

ملا عبدالسلام اخند کی قیادت میں قندوز میں پہلے خفیہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز کیا گیا، پھر آہستہ آہستہ جہادی سرگرمیوں کو عوامی سطح پر منظم کر کے علانیہ کے طور پر وسعت دی گئیں ، 2006 کے آخر تک قندوز کے تمام اضلاع تک جہادی سرگرمیاں پھیل چکی تھیں، اس کے بعد قندوز میں جہادی سرگرمیوں میں مسلسل بہتری آئی ، 2007 ء اور 2008 ء کے دو سال اگرچہ قندوز میں فتوحات کے لحاظ سے منفرد تھے لیکن 2009 میں دن کو جہادی کارروائیوں میں بہت اہم پیش رفت ہوئی ، اس سال باضابطہ طور پر نشر ہونے والی اطلاعات کے مطابق قندوز میں مجاہدین نے 196 مختلف کاروائیاں کیں جن میں ملکی فورسز کے علاوہ جرمن فوجیوں کو بھی بھاری جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، اس سال جرمنی کی چانسلر (انجیلا مرکل) اور وزیر دفاع پر مجاہدین نے سب سے بڑا حملہ کیا جو قندوز میں اپنے اپنے فوجیوں سے ملاقات کے لئے آئے تھے ،اس حملے میں یہ دو جرمن لیڈر تو بچ گئے تاہم جرمن  فوجیوں کو جانی نقصان کے علاوہ منفی نفسیاتی نتائج سے بھی دوچار کردیا گیا ۔

2009 موسم بہار میں جب جرمن حملہ آوروں نے ضلع چہاردرہ میں آپریشن شروع کیا تھا اور ملا عبد السلام اخوند مجاہدین کے کمانڈر تھے اس وقت الامارہ ویب سائٹ کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس وقت کی صورتحال کے بارے میں بتایا تھا ( چہاردرہ میں 11 گروپوں کو فعال اور منظم کیا گیا ہے ،ہر گروپ میں 15 سے 20 تک مجاہدین شامل ہیں مجموعی طور پر 200 مجاہدین ہر وقت جہادی سرگرمیوں میں مصروف عمل رہتے ہیں جبکہ ان کے علاوہ عوام میں بہت سارے لوگوں کی حمایت ہمیں حاصل ہے جب ہمیں ان کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ،چند دن قبل جرمن فوجیوں نے افغان پولیس اور فوج کے اہلکاروں سمیت ضلع چہاردرہ میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا اس آپریشن میں تقریبا 100 ٹینکوں اور فوجی گاڑیوں نے حصہ لیا ،انہوں نے یہاں ایک بڑے صحرا میں فوجی کیمپ بنایا ،مجاہدین نے ان کا راستہ روکنے کے لئے گھات لگا کر بارودی سرنگوں کو تیار کر رکھا تھا ، جرمن حملہ آور پہلے عین المجر علاقے میں داخل ہوئے جن پر مجاہدین نے حملہ کیا ، اس جھڑپ میں 3 جرمن ٹینکوں کو تباہ اور متعدد فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا ، اسی دن باسوسو کے علاقے میں جرمنی فوج کے سپاہی پیدل آرہے تھے جن پر مجاہدین نے آس پاس باغات سے حملہ کیا، 8 جرمن فوجی موقع پر ہلاک ہوئے ،اس کے بعد انہوں نے سجانی علاقہ کے طرف رخ کیا وہاں بھی مجاہدین پہلے سے ان کا انتظار کررہے تھے جب جرمن فوج کے اہلکار وہاں پہنچے تو مجاہدین نے ان پر حملہ کیا اس جھڑپ میں 4 ٹینک تباہ اور متعدد اہلکار ہلاک ہوگئے ۔

آپریشن کے دوسرے دن انہوں نے سڑک بالا کی طرف نقل و حرکت کیا لیکن راستے میں میر شیخ کے مقام پر بارودی سرنگ سے ٹکرا کر ان کا ایک ٹینک تباہ ہوا اور اس میں سوار تمام اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے اس کے بعد فتاح کے مقام پر گھات میں بیٹھے مجاہدین نے ان پر حملہ کیا اور دونوں جانب سے شدید جھڑپیں شروع ہوئیں اس دوران 2 ٹینکوں کو نشانہ بناکر تباہ کیا گیا، مسلسل دو دن آپریشن کے دوران ان کے متعدد ٹینک تباہ اور بھاری جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ،ان کے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کو منتقل کرنے کے لئے کئی بار ہیلی کاپٹر آئے اور آخر مجبور ہو کر آپریشن کے خاتمے کا اعلان کیا اور واپس قندوز شہر میں واقع اپنے فوجی اڈوں کی طرف چلے گئے ۔

اسی سال کے آخر میں ملا عبدالسلام اخوند کو پاکستان کے سفر کے دوران اکوڑہ خٹک سے پاکستانی انٹیلی جنس ادارے نے گرفتار کیا اور اس کے بعد پشاور، کراچی اور اسلام آباد میں چار سال قیدی رہے ، موصوف کے لئے جیل میں یہ مرحلہ صبر، تکلیف برداشت کرنے اور ریاضت کا ایک سنہری موقع تھا ، موصوف کہتے تھے کہ جیل میں انہوں نے صحیح البخاری ،صحیح المسلم، سنن ترمذی، تفسیر ابن کثیر اور البدایۃ و النھایہ سمیت دیگر کتب کا مطالعہ کیا، ملا عبد السلام اخوند نے اگرچہ دینی علوم کم حاصل کئے تھے لیکن وسیع مطالعہ اور ذھانت کی بناء پر ایک بہترین عالم دین تھے ۔

قندوز میں ذمہ داریوں کا دوسرا مرحلہ

ملا عبد السلام اخوند جب جیل سے رہا ہوگئے تو پہلے مختصر مدت کے لئے صوبہ بلخ کے گورنر مقرر اور ایک جہادی تربیتی سینٹر کے سربراہ مقرر ہوئے ،بعد ازاں انہیں ایک بار پھر صوبہ قندوز کے گورنر کے طور پر منتخب کیا گیا ۔

قندوز اس وقت سرکاری فوج اور خاص طور پر قومی ملیشیا کے اہلکاروں کے کنٹرول میں تھا، مجاہدین کئی علاقوں میں خفیہ طور پر سرگرمیاں جاری رکھتے تھے ، دیہات اور تمام دیہی علاقوں میں قومی ملیشیا اور حکومت کے حامی مقامی مسلح افراد نے جگہ جگہ چوکیاں قائم کر رکھے تھے ، ملا عبد السلام اخوند قندوز سے قومی ملیشیا کے اہلکاروں کا صفایا کرنا اپنی اولین ترجیحات میں شامل کردیا ، لوگوں کو اعتماد میں لیا ،عوام قومی ملیشیا کے اہلکاروں کے ظلم اور بربریت سے بہت تنگ آچکے تھے انہوں نے موقع غنیمت سمجھ کر دل کھول کر مجاہدین کی حمایت کا اعلان کیا اور قندوز سے ملیشیا کے اہلکاروں کا صفایا کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا ،چہاردرہ ، دشت آرچی، گورتیپہ، امام صاحب اور دیگر علاقوں میں مجاہدین نے مسلسل کارروائیوں کے نتیجے میں ملیشیا کے اہلکاروں کی چوکیوں کا مکمل خاتمہ کردیا ، ایک سال کے اندر قندوز میں دوبارہ ماحول ایسا سازگار بنا جس طرح ملا عبدالسلام اخوند کی گرفتاری سے قبل جو فضا بنی تھی، دیہی علاقے اور شہر کے مضافات کو ملیشیا کے اہلکاروں کے چنگل سے چھڑا لیا ۔

اس مرحلے میں دشمن ملیشیا کے اہلکاروں کو زبردستی علاقے سے نکال دیا گیا اور ان میں سے اکثر جو اصل حقیقت سے آگاہ نہیں تھے ، انہیں دعوت دی گئی اور اصل حقائق سے آگاہ کر کے حکومت کی صف سے نکال کر امارت اسلامیہ کی صف میں شامل کردیا ،صوبے کے بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ملا عبد السلام اخوند نے ان علاقوں میں امارت اسلامیہ کے تمام ادارے فعال کردیئے ،حکومتی نظام بہتر بنایا ، دینی اور جدید عصری تعلیمی ادارے قائم کئے ، عدالتوں کا نظام سستا اور فعال بنایا ، عوامی مسائل کے حل کے لئے فوری اور انصاف پر مبنی عدالتیں قائم کی گئیں ،عوام کا اعتماد اسلامی عدالتوں پر بحال کردیا ، مجاہدین کی تربیت کے لئے خصوصی تربیتی مراکز قائم کئے گئے اور اس کے بعد ملکی تعمیر نو اور ترقیاتی منصوبوں کا سلسلہ شروع کیا ،قندوز میں تمام اقوام آباد ہیں اس لئے اسے چھوٹا افغانستان بھی کہا جاتا ہے ، ملا عبد السلام اخوند نے بہترین حکمت عملی اور اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھاتے ہوئے تمام برادر اقوام کے دلوں میں اپنا مقام بنایا اور مقبولیت حاصل کرلی ،عوام انہیں ایک عادل حکمران کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا بہت احترام کرتے تھے ، ملا عبدالسلام اخوند کی قیادت میں مجاہدین نے قندوز میں بہت ساری فتوحات بھی حاصل کیں جن میں دو بار ضلع چہاردرہ مرکز، دو بار ضلع قلعہ ذال، ایک بار ضلع خانہ آباد، دشتی آرچی اور امام صاحب اضلاع کے مراکز اور دو بار صوبائی دارالحکومت کی فتوحات شامل ہیں ۔

قندوز کے عظیم فاتح :

ستمبر 2015 میں امارت اسلامیہ کے بانی امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے انتقال کا اعلان ہوا تھا اور ادھر نئے امیر شہید ملا اختر منصور کے انتخاب کا کچھ عرصہ گزرا تھا، مجاہدین غیر معمولی صورتحال سے دوچار تھے، ایک طرف ملا محمد عمر مجاہد کے انتقال کا غم اور سوگ اور دوسری جانب کچھ اختلافات اور تنازعات نے مجاہدین کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا ،اس وقت ملا عبد السلام اخوند نے قندوز شہر پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ۔

موصوف کے ایک قریبی دوست ملا حمزہ نے کہا کہ ملا عبدالسلام اخوند اس وقت قندوز شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے اس لئے متحرک ہوئے تاکہ وہ چند اہداف حاصل کرسکیں ، ان کے اہداف میں مجاہدین کی مایوسی کو دور کرنے اور فتح کی خوشخبری سے ان کے حوصلے بلند کرنے ،اختلافات کے بجائے فتوحات کی بحث شروع کرنے ، دشمن کے پروپیگنڈے کا رخ تبدیل کرنے ، قندوز جیل سے قیدیوں کو آزاد کرنے ، اضلاع کے مراکز کی طرح صوبائی دارالحکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت اور قوت ثابت کرنا اور دشمن فون کے اہلکاروں کے حوصلے پست کرنا جیسے اقدامات شامل تھے ۔

انہوں نے کئی بار فوجی کمیشن کو اپنا منصوبہ پیش کیا ، اس کے بعد امارت اسلامیہ کے سربراہ ملا اختر محمد منصور صاحب نے اس کی توثیق کرتے ہوئے قندوز شہر کو فتح کرنے کے منصوبے کو حتمی شکل دی گئی ،انہوں نے اس راز کو بہت خفیہ رکھا یہاں تک کہ قندوز پر آپریشن شروع کرنے کے وقت تک کسی کو پتہ نہیں چلا ۔

ملا ہمایوں کہتے ہیں کہ ملا عبد السلام اخوند نے آپریشن کی رات صبح تک نوافل پڑھنے اور دعا کرنے میں مصروف رہے ،جب صبح آپریشن کا آغاز ہوا تو انہوں نے اپنے خصوصی مرکز سے دو فونز اور ایک بڑے ہینڈ سیٹ کے ذریعے مجاہدین کی رہنمائی شروع کردی ، آپریشن کی ابتداء سے فتح حاصل کرنے کے وقت تک وہ مسلسل مجاہدین کے ساتھ رابطے میں تھے ، لمحہ بہ لمحہ ان کی رہنمائی کرتے تھے ان کی رہنمائی سے مجاہدین کے حوصلے مزید بلند ہوئے اور بہترین حکمت عملی کے ساتھ ان کے منصوبے پر عمل ہوتا رہا ۔

جب ٹیلی فون کے ذریعے اطلاع آئی کہ مجاہدین شہر میں داخل ہوگئے اور جیل کو توڑ کر قیدیوں کو رہا کردیا گیا تو ملا عبد السلام اخوند بے ساختہ اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے اور 7 یا 8 منٹ تک سجدہ شکر ادا کیا اور پھر مجاہدین کے ساتھ رابطہ قائم کیا اور کچھ دیر بعد رابطے کا کام ایک اور دوست کے کے حوالہ کیا اور قندوز شہر پہنچ گئے اور پھر پندرہ دن تک مسلسل شہر کے اندر مجاہدین کے ہمراہ جنگ میں مصروف رہے ۔

ملا عبد السلام آخوند اور ان کے ساتھی اس وقت تک قندوز شہر میں موجود اور اس پر حاکم رہے جب امارت اسلامیہ کی قیادت کی جانب سے قندوز شہر سے عقب نشینی کا اعلامیہ جاری ہوا تاکہ فضائی حملوں میں عوام کے تحفظ کا خیال رکھا جائے ،قندوز کی فتح کے موقع پر مختلف قسم نئی گاڑیاں اور ہتھیاروں کے بڑے ذخائر برآمد ہوئے ، یہاں تک کہ عام مجاہدین بھی لگژری گاڑیوں کے مالکان بن گئے لیکن ملا عبد السلام اخوند نے کسی اچھی گاڑی کی تمنا اور کوشش نہیں کی ،ملا ہمایون کہتے ہیں کہ ملا عبد السلام اخوند فتح کے بعد بھی اپنی  پرانی گاڑی  ہی میں سفر کرتے تھے جو بہت پرانا ماڈل تھا اور اس کے سامنے کا شیشہ بھی ٹوٹا ہوا تھا ۔

قندوز کی پہلی فتح کی خبر عالمی میڈیا میں شہ سرخیوں میں بریکنگ نیوز کے طور پر شائع ہوئی ، مجاہدین کو ایک نیا جذبہ اور ولولہ دیا اور دشمن کے حوصلے پست اور ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ، قندوز کی فتح نے دشمن کو ہلاکر رکھ دیا اور اگلے سال قندوز میں وسیع پیمانے پر فوجی آپریشن کا اعلان کیا گیا ، دشمن کے ہزاروں اہلکاروں جو سینکڑوں ٹینکوں اور فضائیہ کی مدد انہیں حاصل تھی ، کو ضلع دشت آرچی پر قبضہ کرنے کے لئے تعینات کیا گیا لیکن ملا عبد السلام اخوند کی قیادت میں مجاہدین نے دشمن کے ساتھ ایک ایسا حربہ استعمال کیا کہ جس پر دشمن کو بھی ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ، دشمن نے ضلع دشتی آرچی پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے وسیع پیمانے پر آپریشن کا آغاز کیا اور اپنی بھرپور توجہ اس پر مرکوز رکھی تاہم ملا عبد السلام اخوند نے جلدی چودہ سو مجاہدین کو قندوز شہر پر حملہ کرنے کا حکم دیا ، قندوز شہر دوسری بار فتح کرنے سے نہ صرف دشمن کا آپریشن بری طرح ناکامی سے دوچار ہوا بلکہ پورے صوبے میں دشمن کے حوصلے پست ہوئے اور پھر فوجی آپریشن کرنے کی جرات نہیں کی ۔

شہادت

دشمن نے بہت کوشش کی کہ اسلام کے قابل فخر غازی کوراستے سے ہٹادے ، اسی وجہ سے کئی بار ان کو شہید کرنے کی ناکام کوشش کی اور کئی بار ان کی شہادت کی جھوٹی افواہیں بھی پھیلائیں ، ایک بار گورتیپہ میں ان پر امریکی ڈرون طیارے نے دو حملے کئے لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا. وہ ہمیشہ شہادت کی تمنا اور دعا کرتے تھے اور کئی بار انٹرویو میں بھی اپنی اس تمنا کا اظہار کیا اور برملا کہتے تھے کہ ان کی شہادت سے اسلام اور جہاد کو کوئی نقصان نہیں ہوگا ۔

ان کے ایک دوست موسی فرہاد نے کہا کہ 2012 میں ایک بار ہم دونوں ریڈیو کی خبریں سن رہے تھے ، ایک ریڈیو میں بحث شروع ہوئی کہ امریکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے ،اس کے بعد ملا عبدالسلام اخوند نے ریڈیو بند کر کے مجھے کہا کہ اللہ تعالی ان کافروں کو برباد کرے اور اپنی طاقت سے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارا ملک ان سے آزاد کرے اور پھر دعا کی کہ اللہ تعالی مجھے ان سے لڑتے ہوئے شہادت کی عظیم نعمت سے سرفراز فرمائے اور میری یہ تمنا  پوری کرے ۔

ملا عبد السلام اخوند کی یہ دیرینہ خواہش اور تمنا مارچ کے مہینے میں پوری ہونی تھی ۔موصوف اس دن صبح ضلع چہاردرہ میں تھے بعد ازاں اپنی والدہ محترمہ سے ملنے کے لئے ضلع دشت آرچی گئے ، دوپہر اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارا اور ان کی ملاقات کا شرف حاصل کیا اور اس کے بعد اپنے گاؤں کے قریب امیر ملوک کے گاؤں میں ایک مجاہد ساتھی کے گھر گئے ، انہوں نے اسی دن مجاہدین کی مجلس شوری کا اجلاس بھی طلب کیا تھا ، ابھی یہ اپنے دوست کے گھر میں ہی تھے کہ سہ پہر تین بجے کے بعد امریکی ڈرون طیارے نے تین میزائل داغے ،ایک مزائل گاڑی پر اور دو اس گھر پر جا گرے جس میں ملا عبد السلام اخوند  موجود تھے ۔ مل عبدالسلام اخوند رحمہ اللہ اپنے تین ساتھیوں سمیت موقع پر شہید ہوگئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔

انہیں اسی شام کو سپرد خاک کر دیا گیا. ان کی فاتحہ خوانی چند دن بعد قندوز اور دیگر علاقوں میں تین دن تک جاری تھی ،ملا عبدالسلام اخوند شہید  دومعصوم بچیوں اورایک بیوہ کو چھوڑ کر جام شہادت نوش کرگئے ۔

امارت اسلامیہ کی طرف سے جاری بیان میں کہاگیا تھا کہ فاتح قندوز شہید ملا عبد السلام اخوند شہادت کی تمنا رکھتے تھے اور آج ان کی تمنا پوری ہوگئی ، ان کی شہادت سے نہ صرف امارت اسلامیہ کی صف کمزور نہیں ہوگی بلکہ برعکس سینکڑوں نوجوانوں میں جذبہ جہاد پیدا ہوگا اور وہ قربانی کے جذبہ سے سرشار ہوکر مجاہدین کی صف میں شامل ہوجائیں گے ، ملا عبدالسلام اخوند نے اپنی مدبرانہ قیادت میں ایسے ہزاروں نوجوانوں کو تربیت دی ہے کہ ان میں سے ہر ایک ان کے نقش قدم پر چلنے کا عزم رکھتا ہے اور دشمن کے خلاف ایک مضبوط ڈھال کی طرح اسلام اور ملک کا دفاع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی ۔

ان کی چند یادیں

ملا عبد السلام اخوند کے قریبی دوست ان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں کہتے ہیں :

ملا عبدالسلام اخوند تصوف سے وابستہ اور پیر سباق صاحب کے مرید تھے تلاوت اور اذکار کا خاص اہتمام کرتے تھے، صبح و شام کی مسنون دعائیں انہیں یاد تھیں ،ان کی مونچھیں مسنون طریقے کے مطابق چھوٹی تھیں ، ایک دوست نے کہا: میں نے اسے بتایا کہ مجاہدین کی مونچھیں بڑی ہوتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مونچھیں چھوٹی کرتے تھے اور ان سے بڑھ کر عظیم مجاہد کون ہیں اور نہ ہی اس کے بعد پیدا ہوسکتا ہے ۔

ان کے ایک دوست نے بتایا کہ ملا عبدالسلام اخوند ہر چیز دائیں سے شروع کرتے تھے یہاں تک کہ گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں باندھتے تھے ،میں نے ان سے کہا کہ قانون تو یہ ہے کہ گھڑی بائیں ہاتھ میں باندھیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ گھڑی بائیں ہاتھ میں باندھیں ، میں نے ان سے سوال کیا کہ دائیں ہاتھ میں باندھنے کا حکم کس کتاب میں لکھا ہے تو ملا عبدالسلام اخوند نے اس حدیث کا حوالہ دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ معموم دائیں سے شروع کرنا تھا ، یہ روایات بہت سی کتب حدیث میں موجود ہیں ،مثلاً : حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ کان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعجبہ التیمن فی تنعلہ وترجلہ وطہورہ وفی شانہ کلہ․

ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے نعل مبارک اورکنگھاکے استعمال اورطہارت وغیرہ؛ بلکہ ہرمعاملے میں دایاں کو پسند فرماتے تھے ۔

نظم و نسق اور صفائی پر ملا عبد السلام اخوند بہت زور دیتے تھے ، قندوز کے ایک تربیتی مرکز کے ذمہ دار نے بتایا کہ جب وہ ہمارے مرکز تشریف لاتے تھے تو ان کی عادت یہ تھی ، نصف شب نماز تہجد کے لئے اٹھتے تھے اور اس کے بعد اپنے کمرے کی صفائی کرتے تھے ،اسی طرح وہ کسی بھی مرکز جاتے تھے تو مجاہدین کو صفائی اور نظم و نسق کا خاص خیال رکھنے کی نصحیت کرتے تھے اس کے بعد خود صفائی شروع کر کے اجتماعی صفائی مہم چلاتے تھے اسی طرح پیالے اور برتن دھوتے تھے اور صفائی کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے تھے ۔

ملا عبدالسلام اخوند عوام سے بہت محبت کرتے تھے اور ان پر مہربان تھے یہاں تک کہ ایک بار ایک شخص نے ان کی گاڑی سے اپنی گاڑی ٹکرادی ،قصوروار بھی وہی شخص تھا لیکن انہوں نے محسوس بھی نہیں کیا ، ایک بار ضلع کمشنر ، چیف اسسٹنٹ اور ضلعی  کمیشن کے سربراہ نے ایک بزرگ شخص پر تشدد کیا تھا جب ملا عبد السلام کو پتہ چلا تو انہوں نے تینوں ذمہ داران کو حراست میں لیا اور پھر پوچھ گچھ کے وقت انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کیا تو ملا عبدالسلام بے ساختہ رونے لگے یہاں تک کہ چیخ چیخ کر رونے لگے اور کہتے تھے: یا اللہ کوئی شخص میرے زیرکنٹرول علاقے میں اس طرح کام کرتا ہے تو میں اس سے بیزار ہوں اور لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں، میں اس کی تائید نہیں کرتا ہوں، میں ایسا ظلم پسند نہیں کرتا ہوں. اے اللہ مجھے معاف کر دے اور مجھے ان کے گناہ کی سزا نہ دے ۔

ضلع دشت آرچی میں قومی ملیشیا کے اہلکاروں نے تخریب کاری کے لئے ڈیم سے پانی ترکمن قوم کے ایک گاؤں کی طرف چھوڑ دیا جس سے 70 مکانات تباہ ہوئے اور بہت سے لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ، ان لوگوں نے قندوز اور کابل میں حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ پانی کا رخ کسی اور طرف موڑ دے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی اس کے بعد وہ ملا عبدالسلام اخوند کے پاس آئے انہوں نے دو بڑے ٹریکٹرز کے ذریعے پانچ کلومیٹر طویل نئی نہر بنا کر پانی کا رخ دوسری طرف موڑ دیا ،جس پر لاکھوں روپے کے اخراجات آئے۔

جنگ کے دوران وہ بہت بہادر اور پر اعتماد ہوتے تھے ، کبھی بھی جنگ کے دوران ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور نہ ہی کبھی خوفزدہ ہوئے ، آج تک جنگ کے دوران کسی نے ان کی آواز میں تبدیلی محسوس نہیں کی ہے ، جب مجاہدین شکست سے دوچار ہوتے تھے تب بھی وہ نارمل حالت میں بڑے اطمنان کے ساتھ مجاہدین کو تسلی دیتے تھے ، وہ جنگ میں خود شرکت کرتے تھے جہاد سے ان کا بہت شوق تھا وہ بہانہ بناکر کبھی بھی جنگ سے پہلوتہی نہیں کرتے تھے بلکہ خود کمان سنبھال کر اعلاء کلمۃ اللہ اور ملک کی آزادی کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے تھے ۔

وہ بیت المال کے ساتھ بہت محتاط تھے اور دنیا کا شوق ترک کیا تھا ،وہ کافی عرصہ صوبہ قندوز کے گورنر بھی رہے لیکن انہوں نے اس دوران جائیدادیں بنائیں اور نہ ہی ان کی اقتصادی صورتحال بہتر ہوئی ۔ ایک طالب علم نے بتایا کہ گزشتہ سال ایک شخص نے ملا عبد السلام اخوند کو عید پر قربانی کرنے کے لئے کچھ پیسے دیئے تھے میں ان کے بھائی کے ساتھ بکرا ذبح کرنے میں مصروف تھا ، بھائی نے بتایا کہ مجھے نہیں کہ کبھی ہم نے واجب قربانی کی ہو کیونکہ ہمارے مالی حالات  کبھی اس سطح پر نہیں پہنچے کہ ہم پر قربانی واجب ہو۔

ملا عبدالسلام اخوند امارت اسلامیہ کے وفادار رہنما تھے اور برملا کہتے تھے کہ موجودہ دور میں امارت اسلامیہ حق جماعت ہے ، وہ امارت اسلامیہ کی حقانیت پر ہمیشہ دلائل پیش کرتے تھے ، جب ملا اختر محمد ملا منصور شہید امارت اسلامیہ کے امیر منتخب ہوئے تو ملا عبدالسلام اخوند کا شمار بھی ان چند رہنماوں میں ہوتا تھا جنہوں نے سب سے پہلے ان کے ساتھ بیعت کا اعلان کیا ، اس کے بعد جب چند لوگوں نے امارت اسلامیہ سے بغاوت کی اور منحرف ہوگئے تو ملا عبدالسلام اخوند ہمیشہ اپنے دوستوں کو یہ نصیحت کرتے تھے کہ انسان کو اپنا انجام معلوم نہیں ہے، لیکن خدا نہ کرے اگر میں نے کبھی امارت اسلامیہ سے اختلاف کیا اور اپنا راستہ الگ کیا تو میری پیروی نہ کرنا ، میں امارت اسلامیہ کی صف میں تھا یا نہیں لیکن ابھی سے واضح کرتا ہوں کہ امارت اسلامیہ حق جماعت ہے اور کبھی بھی اس جماعت سے علیحدگی اختیار نہ کرنا ۔علماء اور دینی طلبہ کی اکثریت اس جماعت سے وابستہ ہے اس تحریک کے منشور اور اغراض و مقاصد نہایت مقدس اور اعلی ہیں ملک میں اسلام کے عادلانہ نظام کا نفاذ اور طاغوتی قوتوں سے ملک کی آزادی مقدس مشن ہے اس مقصد کے حصول کے لئے لاکھوں افراد نے قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ جاری ہے اور جب تک اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جاسکتا تب تک ہم قربانیں دیتے رہیں گے اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔

اللہ تعالی ملا عبدالسلام بریالی شہید رحمہ اللہ اور تمام شہداء کے درجات بلند فرمائے اور وطن عزیز میں اسلامی نظام نافذ کر کے ملک کو سامراجی قوتوں سے نجات دلائے امین ۔