محمد سرور حق پرست رحمہ الله تعالی

قاری  سعید                          اسلامی تاریخ حق کے پیروکاروں کی دلکش یادوں سے بھری پڑی ہے۔ امت اسلام نے ہر دور میں ایسے نوجوانوں کو اپنی آغوش میں پالا ہے، جنہوں نے اپنے دین کے معتقدات کے لیے ہر طرح کی قربانی دی ہے۔ اپنی جوانی کی زندگی، نئی امیدیں، عیش و عشرت، عزیز و اقارب اور […]

قاری  سعید                         

اسلامی تاریخ حق کے پیروکاروں کی دلکش یادوں سے بھری پڑی ہے۔ امت اسلام نے ہر دور میں ایسے نوجوانوں کو اپنی آغوش میں پالا ہے، جنہوں نے اپنے دین کے معتقدات کے لیے ہر طرح کی قربانی دی ہے۔ اپنی جوانی کی زندگی، نئی امیدیں، عیش و عشرت، عزیز و اقارب اور اپنا آبائی وطن سب کچھ اللہ کی رضا کے حصول اور اپنی دینی آرزوؤں پر قربان کر ڈالا۔ اسی راہ میں غربت اور پردیسی کے عالم میں شہادت کے جام پی لیے۔ اگر ہم عالم اسلام کے طول وعرض میں ترکستان سے کابل قسطنطنیہ سے مراکش تک صحابہ کرام کی آرام گاہیں دیکھتے ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام کے ان اولین سپاہیوں کے لیے دین اور قرآن کی خدمت کے لیے اپنا وطن، خاندان اور رشتہ داروں کو چھوڑنا بہت آسان تھا۔ دور دراز ممالک اور نامانوس ماحول میں دین کے لیے غربت اور گمنامی کی موت ان کے لیے فخر کی بات تھی۔

بعد کی صدیوں میں امت مسلمہ میں ایسے نوجوان پیدا ہوئے، جنہوں نے دین کی خدمت اور جہاد کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ انہیں اپنے گھروں سے دور علاقوں میں شہادت کی موت نصیب ہوئی۔ ہندوستان کے سید احمد شہید اور ان کے ساتھی اس سلسلے کے وہ قابل فخر مجاہدین ہیں، جنہوں نے جہاد کی نیت سے ہندوستان سے ہجرت کی۔ سندھ، بلوچستان، کابل اور پشاور کے چکر کاٹے۔ آخر میں بالاکوٹ کے پہاڑوں میں سکھوں کے ساتھ براہ راست جنگ میں شہید ہوگئے۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد کے دور میں عرب دنیا سے آئے ہوئے مجاہدین کا طورخم کے قریب شمشاد نامی علاقے کے پاس بڑا قبرستان ہے۔ امارت اسلامیہ کے دور اقتدار میں افغانستان کے اکثر صوبے امارت اسلامیہ کے زیر نگین تھے، مگر شمال مشرق میں بدخشان اور تخار کے اکثر حصے اس وقت بھی مخالفین کے قبضے میں تھے، مگر اسی مرحلے میں بدخشان اور تخار کے مجاہد طلبہ اور علماء نے ایک بارپھر اسلامی تاریخ میں ایسا ہی ایک اور کارنامہ درج کیا۔ ان کے ذاتی گھر مخالفین کے مقبوضہ علاقے میں تھے، مگر وہ خود گھروں سے دور اسلامی نظام کے سائے میں زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بہت اخلاص اور سنجیدگی سے امارت اسلامیہ کی صفوں میں جہادی ذمہ داریاں ادا کیں۔ حتی کہ تخار اور بدخشان کے شہداء کا لوگر میں ایک الگ قبرستان بن گیا۔ اسی طرح خوست میں مٹہ چینی کے مدرسے پر بمباری میں بھی ان صوبوں کے بہت سے طلبہ شہید ہوئے۔ وہ پردیس کی زندگی میں ہی اللہ تعالی کی ملاقات کو چلے گئے۔ ذیل کی سطور میں ایسے ہی ایک حق پرست سپوت کی سوانح پیش خدمت ہے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی علم اور جہاد کے سفر میں گزار دی اور بالآخر اسی سفر میں امریکی طاغوت کی بمباری میں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے۔

محمد سرور حق پرست

محمد سرور حق پرست ’میزر آب‘ کے صاحب زادے ہیں۔ آپ تخار کے ضلع ’نمک آب‘ میں ایک دین دار خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ ابھی چھوٹے تھے، جب افغانستان میں کمیونسٹ حکومت کے ظلم و ستم کا دور شروع تھا،مگر جہاد اور اسلامی انقلاب کے گرم دنوں کے حالات کی سختی کے باوجود محمد سرور نے دینی علوم کی تعلیم کا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ہی میں مولوی عبدالرشید سے حاصل کی۔ اس کے بعد ’بنگی‘ نامی علاقے میں گئے۔ وہاں مولوی ضیاء الرحمن مدنی صاحب سے دینی علوم حاصل کیے۔ اس کے بعد فرخار گئے اور نہرآب کے علاقے میں مولوی عبدالحلیم سے کچھ کتابیں پڑھیں۔

حصولِ علم کا لمبا سفر

افغانستان کا شمال مشرقی علاقہ ہمیشہ سے علم و ثقافت کا خطہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگ علم کے حصول کا خاص ذوق رکھتے ہیں۔ روس کے خلاف جہاد کے دور میں ان صوبوں میں شدید جنگیں جاری رہتی تھیں۔ بدخشان اور تخار میں دینی علوم کے طلبہ لمبے لمبے سفر کاٹتے اور ہندوکُش کے فلک بوس پہاڑ عبور کر کے پاکستان کے خیبر پختونخوا، کراچی اور دیگر علاقوں تک پہنچتے۔ وہاں دینی مدارس میں علوم حاصل کرتے۔ یہ طالب علم اکثر اس وقت واپس لوٹتے، جب دستار فضیلت باندھ کر فارغ ہو چکے ہوتے۔ مولوی محمد سرور حق پرست بھی علم کے شوق میں سفر کرنے والے انہی طلباء میں سے تھے۔ انہوں نے علم کے حصول کے لیے پاکستان کا سفر کیا۔ پہلے خیبر پختونخوا کے علاقے دیر میں رہے۔ وہاں ایک بار پھر مولوی ضیاء الرحمن مدنی سے کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ وہاں سے مینگورہ گئے اور مختلف شیوخ سے کتابیں پڑھیں۔انہوں نے درجہ تکملہ دارالعلوم سیدو شریف میں پڑھا۔ دورہ حدیث شریف بھی وہیں سے پڑھا۔ دستار فضیلت وہیں باندھی۔ وہ ایک باستعداد طالب علم تھے۔ انہوں نے تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریس بھی کی اور دیگر طلباء کو مختلف کتابیں پڑھائیں۔

امارت اسلامیہ میں خدمت

مولوی محمد سرور شہید صوبہ تخار کی سطح پر باصلاحیت علماء میں سے تھے۔ وہ جہادی صف کی نمایاں شخصیات میں سے تھے۔ جب تحریک طالبان اٹھی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت اس تحریک کا حصہ بن گئے۔ انہوں نے تحریک کے مختلف انتظامی اور عسکری شعبوں میں کام کیا۔ انہوں نے عسکری ذمہ داریوں کے علاوہ پروان اور لوگر کے سیکرٹری کی حیثیت سے بھی اپنی ذمہ داری نبھائی۔ جب مولوی ضیاء الرحمن مدنی صاحب پروان کے گورنر تھے تو مولوی محمد سرور صاحب ان کے معاون کے طورپر ساتھ رہے۔ اس چھ ماہ کے عرصے میں، جب پروان میں شدید جنگیں جاری تھیں اور مخالفین ہمیشہ حملے کرتے رہتے تھے، مولوی سرور صاحب نے بہت بہادری سے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔ اس کے بعد مولوی صاحب بڑے عرصے تک معاون رہے اور ساتھ ساتھ عسکری شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔

شہادت

افغانستان پر امریکا کے صلیبی حملے کے چند ہفتے بعد جب مجاہدین کابل اور دیگر شہروں سے نکل رہے تھے، کئی عرب اور دیگر مجاہدین صوبہ خوست کی جانب گئے۔ امریکی طیارے اور ہیلی کاپٹر ہر وقت فضا میں پرواز کرتے اور مجاہدین کو تلاش کرتے رہتے۔ اسی پسپائی کے دنوں میں کئی مجاہدین نے ایک رات خوست شہر کے مغربی جانب مٹہ چینی میں مدرسہ نورالقرآن میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ مولوی محمد سرور حق پرست بھی انہیں میں شامل تھے۔ رمضان کی پہلی رات کو جب سب لوگ مسجد میں تراویح کی نماز ادا کر رہے تھے، اچانک ان پر امریکی طیاروں نے بمباری کر دی، جس سے درجنوں مجاہدین سجدہ کی حالت میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگئے۔ مولوی محمد سرور شہید انہی خوش قسمت مجاہدین کی جماعت میں تھے، جنہوں نے شدید حالات میں عبادت اور رمضان المبارک کے مہینے میں امریکی ظالم طاغوت کی بمباری میں شہادت حاصل کی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

رحمہ الله تعالی

اس طرح وہ نورانی نوجوان، جنہوں نے حق کی تلاش اور اسلامی نظام کے قیام کی خواہش میں اپنا گاؤں اور گھر چھوڑا۔ گمنامی کے عالم میں شہادت کی سعادت سے بہرہ ور ہوا۔ وہ بھی دیگر مسافروں کے ساتھ ایک قبرستان میں دفن کر دیے گئے۔ مولوی محمد سرور شہید کی صورت اور سیرت کے حوالے سے ان کے قریبی ساتھی کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے سیرت اور کردار کے حوالے سے خوب نوازا تھا۔ ان کا چہرہ دل کش اور نورانی تھا۔ ان کے اخلاق ان کا امتیازی وصف تھا۔ وہ تکبر، غرور اور تند خوئی و تندگوئی سے پاک تھے۔ ساتھیوں سے اچھا سلوک کرتے۔ کسی کے بارے میں بھی نامناسب الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے۔