شہید عبدالرحمن خالد کی پاکیزہ زندگی

احمد اللہ وثیق امارت اسلامیہ نے موجودہ دور میں ابتدائے اسلام کے مسلمانوں کے قابل فخر کارناموں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ دیگر اوصاف کے علاوہ امارت اسلامیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ رہنماؤں اور زعماء نے ہمیشہ ایک عام مجاہد کی طرح اللہ کے دین کے دفاع کے لیے خود کو […]

احمد اللہ وثیق

امارت اسلامیہ نے موجودہ دور میں ابتدائے اسلام کے مسلمانوں کے قابل فخر کارناموں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ دیگر اوصاف کے علاوہ امارت اسلامیہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ رہنماؤں اور زعماء نے ہمیشہ ایک عام مجاہد کی طرح اللہ کے دین کے دفاع کے لیے خود کو قربانی کے میدان میں پیش کیا ہے۔ انہوں نے اپنی جان و مال کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ہے۔ افغانستان پر مریکی یلغار کی پہلی رات پہلی قربانی امارت اسلامیہ کے بانی ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ کے چچا مولوی محمد حنیف نے دی۔ اس قربانی کے بعد ملا محمد عمر مجاہد نے دشمن پر واضح کر دیا کہ وہ میدان کارزار سے راہ فرار اختیار کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ مجاہدین کی صف اول میں ہَرَاوَل دستے کا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

امارت اسلامیہ کے دوسرے امیر ملا اختر محمد منصور شہید نے بھی عظیم قربانی دے کر ایسی تاریخ رقم کی، جس نے صحابہ کے دور کی یاد تازہ کر دی۔ امارت کے جس رُکن نے منصور شہید رحمہ اللہ کی جھلسی ہوئی لاش کا معائنہ کیا تھا، انہوں نے بتایا کہ ان کے پورے جسم میں ذرا سی جگہ بھی آگ سے محفوظ نہ رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے محبوب قائد نے دینِ اسلام کے دفاع کے لیے اللہ کی راہ میں عظیم قربانی دے کر تاریخ رقم کی ہے۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ ہم سب اسلام کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

ہماری قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے موجودہ امیر شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ صاحب حفظہ اللہ نے بھی اپنا امتحان دے دیا ہے۔ انہوں نے اپنا جگر گوشہ نوجوان بیٹے کو دوسرے مجاہدین سے پہلے استعماری قوتوں کے غلاموں کے مقابلے کے لیے پیش کیاہے۔ شیخ صاحب کے بیٹے نے ہلمند کے ضلع گریشک میں دشمن پر فدائی حملہ کر کے ثابت کیا کہ ہم کردار کے غازی ہیں۔ ہم جو کہتے ہیں، کر کے دکھاتے ہیں۔ ہمارے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہم ملتِ ابراہیم میں سے ہیں۔ ہم نے اپنے بیٹے کو حضرت اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کی طرح اللہ کی رضا کی خاطر قربانی کے لیے پیش کیا ہے۔

خالد شہید تقبلہ اللہ

حافظ خالد رحمہ اللہ 20 سال پہلے امارت اسلامیہ کے امیر شیخ ہبۃ اللہ اخندزادہ کے علمی و روحانی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق صوبہ قندھار سے ہے، جو صدیوں سے علم کا مرکز رہا ہے۔ اسی وجہ سے اس خاندان کو احتراماً ’اخندزادہ‘ (علماء کا خاندان) کا لقب دیا گیا ہے۔ حافظ خالد رحمہ اللہ بچپن سے باادب اور ذہین تھے۔ انہوں نے 9 سال کی عمر میں قرآن پاک کا مکمل حفظ کر لیا تھا۔ جس کے بعد وہ دینی علوم کے حصول میں مگن ہو گئے۔انہوں نے صرف، نحو، عقائد، فقہ، بلاغت، منطق اور دیگر مروجہ فنون کی کتابیں اپنے چچا حافظ مولوی احمد اللہ صاحب سے پڑھ کر جہاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔

فدائی تربیتی مرکز میں

حافظ خالدتقبلہ اللہ نے اپنے والد صاحب کی اجازت سے امارت اسلامیہ کے عسکری تربیتی مرکز میں داخلہ لیا، تاکہ وہ جہاد کے لیے نظریاتی اور عملی تربیت حاصل کر کے ایک تربیت یافتہ مجاہد کی حیثیت سے عالم کفر کے مقابلے کے میدان میں قدم رکھیں۔ انہوں نے ایک سال کی مدت میں عسکری تربیتی مراحل طے کرنے کے بعد جہاد سے بے پناہ محبت کے باعث فدائی حملوں کے لیے رضامندی کا اظہار کر دیا۔ جس کے بعد انہوں نے فدائی حملوں کے خصوصی تربیتی مرکز میں داخلہ لے لیا۔ وہ گزشتہ تین سال سے فدائی حملے کے لیے انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے قابض قوتوں اور ان کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پورے جوش و جذبے سے انتظار کیا۔ ان کے اِس ارادے پر ان کے خاندان اور خاص طور پر والد محترم نے بھی اتفاق کیا۔

حافظ خالد نے تربیتی مرکز میں دوستوں اور فدائی مجاہدین کے درمیان بہت مقبولیت حاصل کی۔ انہیں اچھے استاد اور مربی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ نماز کی امامت کی ذمہ داری بھی ان کے سپرد تھی۔ وہ کبھی کبھار جہاد کے فضائل بھی بیان کرتے تھے۔ وہ اپنے دوستوں کے درمیان ایک عام مجاہد کی طرح ہی رہتے تھے۔ انہوں نے کبھی اپنے ساتھیوں کو یہ تأثر نہیں دیا کہ وہ امیرالمؤمنین کے فرزند اور خصوصی پروٹوکول کے مستحق ہیں۔

فدائی مجاہدین کے گروپ میں

فدائی کارروائیاں نہایت پیچیدہ ہوتی ہیں۔یہ ہمیشہ مؤثر حربے کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔حال ہی میں افغانستان کے مختلف علاقوں میں فدائی حملے کیے گئے۔ ہتھیاروں سے لیس فدائی مجاہدین نے دشمن کے مضبوط فوجی مراکز پر براہ راست اور اچانک حملوں کا آغاز کیا ہے۔ کچھ جانثار مجاہدین اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے کارروائی میں شریک باقی مجاہدین کے لیے دشمن کے مراکز میں داخل ہونے کے لیے راہ ہموار کرتے ہیں۔ حافظ خالد رحمہ اللہ نے تین ماہ قبل اپنے والد محترم سے آخری ملاقات کی اور طویل سفر کے لیے الوداع کہا۔ انہوں نے اُن تین مہینوں میں ہلمند میں وقت گزارا اور فدائی مجاہدین کے خصوصی گروپ میں شامل ہو کر مشکل اور مضبوط فوجی مراکز پر کارروائیوں میں حصہ لیا، جن سے ہلمند کے مختلف اضلاع میں دشمن کے مضبوط مراکز فتح ہوئے۔

شہادت

26 شوال 1438ھ کو صبح سویرے ہلمند کے ضلع گریشک میں دشمن کی متعلقہ سکیورٹی چوکیوں اور فوجی اڈوں پر مجاہدین نے بیک وقت مختلف حملوں کا آغاز کیا۔ پہلی فرصت میں دشمن کی فرنٹ لائن پر ایک فدائی مجاہد نے بارود بھری گاڑی کے ذریعے فدائی حملہ کیا، جس سے تمام رکاوٹیں دور ہوئیں۔ اس کے بعد پیادہ دستے کے مجاہدین نے دشمن کی چوکیوں پر حملہ کر دیا۔ چند گھنٹے جھڑپوں کے بعد مجاہدین نے متعدد چوکیوں پر قبضہ کر لیا، تاہم جس علاقے میں جنگ جاری تھی، وہاں ’فقیران‘ نامی گاؤں میں ’باری‘  نامی مضبوط فوجی اڈہ تھا، جہاں سے جوابی حملے ہو رہے تھے۔ جس سے مجاہدین کی پیش قدمی روک رہی تھی۔ مجاہدین نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے منصوبہ بنایا کہ چند فدائی مجاہدین اس مضبوط اڈے پر دستی بموں سے حملہ کریں اور دھماکہ خیز مواد سے اڈے کی دیواریں گرا دیں۔ دشمن کے اس مضبوط فوجی اڈے پر خطرناک کارروائیوں کی ذمہ داری فدائی مجاہدین کے گروپ کے سپرد کی گئی، جس میں حافظ خالد بھی شامل تھے۔ فدائی مجاہدین کے گروپ نے بڑی بہادری سے دشمن کے فوجی اڈے پر دھاوا بولا۔ دشمن نے مجاہدین پر گولیوں کی بارش کر دی، لیکن مجاہدین بہرحال اڈے کی مضبوط دیواروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ لہٰذا انہوں نے دستی بموں اور دھماکہ خیز مواد سے دیواریں گرانا شروع کر دیں۔ اسی دوران حافظ خالد سمیت دوسرے فدائی مجاہدین دشمن کے خلاف دو بدو لڑائی میں جام شہادت نوش کر گئے۔

حافظ خالد شہید کی شخصیت

حافظ خالد شہید کے چچا مولوی حبیب اللہ صاحب کہتے ہیں کہ حافظ خالد بچپن میں نہایت متقی و پرہیز گار طالب علم تھے۔ جب وہ بہت چھوٹے تھے تو بھی صبح کی نماز پابندی سے باجماعت ادا کرتے تھے۔ وہ مسجد میں کبھی شیخ صاحب سے پہلے اور کبھی ان کے بعد پہنچ جاتے تھے۔ وہ دوران طالب علم بھی بہت زیادہ عبادت گزار تھے۔ وہ روزے رکھتے اور کثرت سے نوافل میں مشغول رہتے تھے۔ ان کے بزرگ چچا مولوی حافظ احمدللہ اخندزادہ نے بتایا کہ حافظ خالد کا جہادی جذبہ قابل دید تھا۔ سبق کے دوران جہاد سے متعلق آیات اور احادیث کا بیان ہوتا تھا تو ان کی آنکھوں سے آنسو آ جاتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ حافظ خالد شہید نہایت مؤدب اور با اخلاق تھے۔ بہت نرم لہجے میں بات کرتے تھے۔ اپنے بڑوں اور اساتذہ کے فرماں بردار تھے۔ ان کا بہترین مشغلہ ذکر اور تلاوت تھا۔ وہ بظاہر خاموش مزاج طالب علم تھے، مگر روحانی طور پر سب سے زیادہ باصلاحیت تھے۔ شوق سے مطالعہ کرتے اور بڑے بڑے طالب علموں کو کتابیں پڑھاتے تھے۔

مولوی احمدللہ کا کہنا ہے کہ حافظ خالد رحمہ اللہ میں اپنے والد شیخ صاحب کی بہت زیادہ صفات موجود تھیں۔ وہ اگرچہ شیخ صاحب کے دوسرے بیٹے تھے، لیکن علمی لحاظ سے زیادہ باصلاحیت اور ذہین تھے۔ ہمارے پورے خاندان کو یقین تھا کہ شیخ صاحب کے علمی جانشین حافظ خالد ہوں گے۔ خود شیخ صاحب کی توجہ ان پر مرکوز رہتی تھی۔ ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں۔ حافظ خالد شہید رحمہ اللہ عسکری تربیت کے دوران جب گھر تشریف لاتے تھے تو واپسی پر ہم سے صرف ایمان کی سلامتی کی دعا کا کہا کرتے تھے۔ حافظ خالد نے شہادت سے تقریبا تین ماہ قبل اپنے والد بزرگوار سے ملاقات کی تھی۔ شیخ صاحب کو علم تھا کہ ان کے بیٹے کا نام فدائی مجاہدین کی فہرست میں لکھا گیا ہے۔ وہ ہمیشہ ان کی شہادت کا انتظار کرتے تھے۔ اللہ اُن کی شہادت قبول فرمائے۔ آمین