ملا رحمت اللہ شہید کی زندگی اور کارناموں پر ایک نظر

عبدالرؤف حکمت ملا رحمت اللہ اخند شہید کا شمار بھی ان مشہور غازیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کے لئے انتھک جدوجہد کی اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا. موصوف کا نام اگرچہ زیادہ مشہور نہیں تھا لیکن وہ اسلامی تحریک کے پہلے اور اہم […]

عبدالرؤف حکمت

ملا رحمت اللہ اخند شہید کا شمار بھی ان مشہور غازیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے افغانستان میں امارت اسلامیہ کے قیام کے لئے انتھک جدوجہد کی اور اسی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا. موصوف کا نام اگرچہ زیادہ مشہور نہیں تھا لیکن وہ اسلامی تحریک کے پہلے اور اہم فوجی کمانڈروں میں سے تھے. ملا محمد آخوند شہید اسلامی تحریک کے پہلے فوجی کمانڈر تھے اور ملا رحمت اللہ اخند ان کے نائب کی حیثیت سے فرائض سر انجام دیتے تھے. ملا محمد اخوند اور ملا رحمت اللہ اخوند کی قیادت میں قندھار، ہلمند اور افغانستان کے مغربی صوبے اور کئی دیگر علاقے فتح ہوئے تاہم ابھی تک امارت اسلامیہ کی اسلامی حکومت سے لطف اندوز نہیں ہوئے تھے کہ شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوگئے ، اس تحریر میں ان کی زندگی اور کارناموں کی مختصر تفصیل زیر قرطاس کرتا ہوں ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

ملا رحمت اللہ اخند :

شہید ملا رحمت اللہ اخند نے قندہار ضلع ارغنداب کے علاقے جازہ میں الحاج ملا فیض محمد اخند کے دیندار گھرانے میں آنکھ کھولی . انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کی مسجد میں حاصل کی اور کچھ عرصہ بعد جب افغانستان پر سوویت یونین نے یلغار کی تو ان کے خاندان نے بھی ہجرت کر کے بلوچستان میں قائم سرخاب کیمپ میں رہائش اختیار کی اور وہاں پر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔

ملا رحمت اللہ اخند نے کمیونزم کے خلاف جہادی کارروائیوں میں حصہ لیا اور جہاد کی کامیابی کے بعد حصول علم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور قندہار کے علاقے سوزنی میں مولوی خدائے نظر صاحب کے مدرسے میں کچھ کتابیں پڑھیں اور بعد ازاں کوئٹہ میں مشہور عالم دین شیخ الحدیث مولانا عبدالعلی دیوبندی صاحب کے مدرسہ میں داخلہ لیا اور حصول علم کا سلسلہ جاری رکھا ۔

طالبان کی اسلامی تحریک کا آغاز :

ملا رحمت اللہ اخند نے شہادت سے کچھ عرصہ قبل مشہور لکھاری ملا محمد حسین مستعد شہید کے ساتھ انٹرویو میں اسلامی تحریک کے ابتدائی دور کی کامیابیوں کے بارے میں کچھ تفصیلات فراہم کیں جس کی آڈیو انٹرویو محفوظ ہے ، آئیے ان کی زبانی سنتے ہیں :

سن 1373 میں دوسرے دوستوں کے ساتھ میں بھی مولوی عبدالعلی دیوبندی صاحب کے مدرسے میں حصول علم میں مصروف تھا کہ اطلاع ملی کہ قندھار میں شر اور فساد کے خلاف طالبان کی اسلامی تحریک شروع ہوئی ہے. میں نے ملا داد اللہ اخوند ، مولوی عبدالغفور ، مولوی عبدالوکیل متوکل اور دیگر دوستوں کے ہمراہ قندھار کا رخ کیا ، قندھار پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ ملا محمد عمر مجاہد کی قیادت میں ضلع میوند کے علاقے سنگیسار میں اسلامی تحریک کا آغاز ہوا ہے ۔ ہم بھی وہاں گئے اور تحریک میں شامل ہوگئے ۔

اسلامی تحریک کی قیادت نے مجاہدین کا ایک گروپ تشکیل دی ،ملا رحمت اللہ اخند کو اس گروپ کا سربراہ مقرر کیا گیا جن میں ملا دادالله شہید اور امارت کے بہت سارے سینئر فوجی رہنما، ’’جو بعد ازاں مستقل گروپوں کے سربراہ بن گئے‘‘ شامل تھے . ملا رحمت اللہ نے کہا کہ ہم نے سب سے پہلے پاشمول کے علاقے میں ظالم کمانڈر داروخان اور صالح کی چیک پوسٹوں پر حملہ کیا ، اس جنگ میں ہم 200 طالبان تھے جن میں صرف 50 ساتھی مسلح تھے ۔

ملا رحمت اللہ اخند نے سنزری ، ڈنڈ اور دیگر علاقوں کی فتوحات کی تفصیل بتانے کے بعد کہا کہ ملا محمد اخند شہید کی قیادت میں مجاہدین نے سرحدی شہر اسپین بولدک کو فتح کیا اور اس کے بعد طالبان نے قندھار کے مرکز کو فتح کرنے کی منصوبہ بندی کی ، ملا محمد آخوند کو سربراہ اور ملا رحمت اللہ اخوند کو ان کا نائب مقرر کیا گیا ، انہوں نے نہایت بہادری سے قندہار پر حملہ کر کے شہر پر اپنا کنٹرول قائم کیا اور قندہار کو مکمل طور پر فتح کیا ۔

ملا رحمت اللہ اخند نے بولدک کو فتح کرنے کے بعد قندھار کے انزرگی، قشلہ جدید اور دھلی بند کی جنگوں میں شرکت کی ، اس کے بعد ملا محمد اخند کو قندھار کے کورکمانڈر تعینات ہوئے تو ملا رحمت اللہ اخند کو ان کا نائب مقرر کیا ، ہلمند کے شمالی اضلاع میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف جہادی کارروائیوں میں ملا رحمت اللہ اخند نے اہم کردار ادا کیا اور قلعہ ساروان اور کجکی کی جنگ میں دشمن کو شکست دی ۔

ملا رحمت اللہ اخند کی عمر اس 23 سال تھی لیکن وہ باصلاحیت ،بہادر اور منصوبہ ساز تھے اس لئے وہ مجاہدین میں بہت مقبول ہوئے اور امارت اسلامیہ کے بانی ملا محمد عمر مجاہد رحمہ اللہ ہمیشہ ان کے ساتھ فوجی امور کے بارے میں مشورہ اور ان پر زیادہ اعتماد کرتے تھے، عسکری امور میں بڑی بڑی ذمہ داریاں ان کے سپرد کی جاتی تھیں وہ نہایت خوش اسلوبی اور ایمانداری سے انجام دیتے تھے ۔

ملا رحمت اللہ اخند جو اسلامی تحریک کے ابتدائی دور میں ملا محمد اخند کے قریبی ساتھی تھے اور ان دونوں کی بہت ساری خصوصیات ہم مثل تھیں. دونوں کی رائے یہ تھی کہ جنگ کے میدان میں مخالفین کو غیر ضروری طور پر قتل کرنے سے اجتناب کیا جائے اور حتی الوسع کوشش کی جائے کہ مخالفین کو مارنے کے بجائے انہیں راہ فرار اختیار کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ قتل عام بھی کم ہو اور وطن عزیز کوبھی لاقانونیت اور ظالمانہ نظام سے نجات دی جائے . ملا رحمت اللہ اخوند کے ایک دوست نے کہا کہ ہلمند ضلع سنگین کے علاقے گرماوک پہاڑ میں ملا رحمت اللہ نے دشمن کے چند افراد کو گرفتار کیا اور ان سے ہتھیار لے کر انہیں بھاگنے کی ہدایت کی اور بتایا کہ ایسا نہ ہو کوئی آپ کو قتل کرے ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسلامی تحریک کے ابتدائی دور میں انسانی جانوں کے بہت کم ضیاع سے افغانستان کے نصف سے زیادہ رقبے پر اسلامی نظام نافذ کر کے لاقانونیت ، کرپشن اور فساد کو ختم کیا ۔

ملا محمد اخند کے معاون کی حیثیت سے :

سن 1374 کے پہلے چھ مہینوں کے دوران مغربی افغانستان کے صوبوں فراہ، نیمروز اور ہرات میں طالبان اور کمانڈر اسماعیل خان کی فورسز کے درمیان گمھسان کی جنگ جاری تھی، کئی بار طالبان فراہ اور نیمروز صوبوں کو فتح کرنے کے قریب پہنچے لیکن اسماعیل خان، کریم بلوچ اور غفار اخندزادہ ودیگر جنگجو کمانڈروں نے مجاہدین کو دوبارہ ہلمند تک پیچھے دھکیل دیا اس جنگ کی کمان ملا محمد اخوند کے سپرد تھی جبکہ ملا رحمت اللہ اخند نے میدان شہر اور چہار اسیاب میں فرنٹ لائن کی کمان سنبھال رکھی تھی اور ضرورت کے تحت انہیں مغربی محاذ کو بھی بلایا جاتا تھا ۔

صوبہ ہرات کو فتح کرنے سے قبل جب ملا محمد اخوند زخمی ہوا تو ملا رحمت اللہ اخند کو ان کے جنگی محاذ کا سربراہ مقرر کیا گیا اور ملا محمد اخوند کی صحت یابی تک وہ ذمہ داریاں انجام دیتے تھے. جب ملا محمد اخوند صحت یاب ہو کر واپس ٓآئے تو اسی وقت کمانڈر اسماعیل خان نے صوبہ فراہ پر حملہ کیا اور طالبان کو ضلع گلستان سے پسپا کر دیا، اس وقت ملا رحمت اللہ بھی ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے تھے ، ان کے قریبی ساتھی ملا عبدالغفار اخند کہتے ہیں کہ جب ضلع دلارام کی جنگ میں شدت آئی تو ملا رحمت اللہ اخوند اپنے دس ساتھیوں کے ہمراہ دن بھر مزاحمت کرتے رہے ۔

دلارام کے بعد طالبان ہلمند کے شوراب علاقے میں مورچہ زن ہو گئے ، ان کی افرادی قوت بھی کم تھی اور ہتھیار بھی ناکافی تھے لیکن انہوں نے شوراب علاقے میں کمانڈر اسماعیل خان کے جنگجو کی پیشرفت کا راستہ روکا ، اس دوران ملا محمد اخوند شہید ہو گئے تو ملا رحمت اللہ اخوند نے ان کی لاش تشویش ناک حالت میں اٹھا کر دشمن کے قبضے سے بچالیا ، ملا رحمت اللہ نے جنگ کی کمان سنبھالتے ہوئے ہلمند کے ضلع گرشک میں فرنٹ لائن قائم کر دی ،اس وقت اسلامی تحریک کے سربراہ ملا محمد عمر مجاہد نے ملا مشر شہید ، ملا محمد ربانی اور کئی دوسرے رہنماؤں کو ان کی مدد کے لئے ہلمند بھیج دیا اور ملا رحمت اللہ کو ملا محمد اخوند کی جگہ عمومی کمانڈر مقرر کیا ، مجاہدین نے گرشک میں کمانڈر اسماعیل خان کے جنگجو پر حملہ کر کے ان کو شکست دی اور ان کا تعقب جاری رکھ کر صوبہ ہرات کو بھی فتح کیا ۔

صوبہ ہرات کی فتح ایک بڑی اور اسٹریٹجک کامیابی تھی جس کی خوشی میں کچھ مجاہدین نے ہوائی فائرنگ کی لیکن ملا رحمت اللہ نے ان کو منع کیا اور غیر ضروری فائرنگ کو بیت المال کے ساتھ خیانت قرار دیا ۔

شہادت :

ہرات کی فتح کے بعد ملا رحمت اللہ اخند کو کابل کے چہار اسیاب کی کمان کی ذمہ داری دی گئی ، چہاراسیاب میں انہوں نے اس سے پہلے بھی جہادی فرائض انجام دیئے تھے اور ایک بار زخمی بھی ہوا تھا اور دوسری بار بھی نہایت دیانتداری اور خوش اسلوبی سے فرائض انجام دیئے ۔

ملا عبدالغفار اخوند جو چہار اسیاب میں ملا رحمت اللہ اخند کے قریبی ساتھی تھے ، کہتے ہیں کہ ملا رحمت اللہ ایسے کمانڈر نہیں تھے کہ مشکل محاذ پر دوسرے ساتھی کو بھیجتے بلکہ سب سے پہلے خود وہاں پہنچنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ چہار اسیاب کی فرنٹ لائن میں ایک بار رات کو میں جاگ گیا تو دیکھا کہ تورسر نامی پہاڑ سے فائرنگ ہورہی ہے ،میں نے سوچا کہ شاید دشمن نے اس پہاڑ پر قبضہ کیا ہے ، میں نے ملا رحمت اللہ اخند کو جگایا کہ وہ کسی کو بھجوا کر صورتحال معلوم کریں لیکن ملا رحمت اللہ اخند نے رات کو خود جاکر پتہ کیا اور صورتحال کا جائزہ لیا ۔

ملا رحمت اللہ اخند کے دوستوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے جذبے سے سرشار تھے اور ہمیشہ فرنٹ لائن کے مورچوں میں خطرناک پوزیشن پر جاتے تھے اور حملے سے قبل دشمن کے مورچوں، بارودی سرنگوں اور جنگی محاذ کی معلومات خود حاصل کرتے تھے اور آخر کار ان کی شہادت بھی اس وقت ہوئی جب وہ دشمن پر حملے کے لئے صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے ۔

ان کے کزن ملا تاج محمد اخوند کہتے ہیں کہ چہار اسیاب ریشخورو کے علاقے تپہ سکڈ میں ملا رحمت اللہ اخند مشہور کمانڈر ملا داد اللہ اخوند کے ہمراہ دشمن کے مورچوں کی معلومات حاصل کرنے اور صورتحال کا جائزہ لینے میں مصروف تھے کہ ملا داد اللہ اخوند پر بارودی سرنگ کا دھماکہ ہوا اور ان کی ایک ٹانگ کٹ گئی اور ملا رحمت اللہ اخند کو دوسری جانب پھینک دیا جن پر دوسرے بم کا دھماکہ ہوا اور وہ موقع پر شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے. انا لله و انا الیہ راجعون ۔

چند کارنامے :

ملا رحمت اللہ کے کزن ملا تاج محمد کا کہنا ہے کہ وہ ایک حقیقی اور مخلص مجاہد تھے، پیسوں اور دولت سے لاتعلق تھے، ایک بار ایک سرمایہ دار شخص نے ان اور ان کے دیگر دو ساتھیوں کے ساتھ مالی تعاون کیا لیکن انہوں نے وہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی اور کہا کہ اگر میں کمانڈر یا امارت اسلامیہ کا ذمہ دار شخص نہ ہوتا تو وہ مجھے اتنی بڑی رقم نہیں دیتے ۔

امارت اسلامیہ کے بانی ملا محمد عمر مجاہد نے کئی بار ملا رحمت اللہ اخوند کو قیمتی گاڑی فراہم کی لیکن وہ اچھی گاڑی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور ہر بار قیمتی گاڑی وصول کر کے اپنے دوستوں کو دیتے تھے اور خود عام گاڑی میں سفر کرتے تھے ، اچھے اخلاق اور اخلاص کی وجہ سے امارت اسلامیہ کے سربراہ ان سے خصوصی تعلق قائم رکھتے تھے ،ان کی شہادت سے وہ بہت رنجیدہ ہوئے اور ساتھیوں کو بتایا کہ وہ ان کی شہادت کا اعلان نہ کریں بلکہ خفیہ طور پر انہیں اپنے آبائی گاؤں میں سپرد خاک کریں۔ ان کی شہادت کے بعد بھی امیرالمؤمنین ان کے گھر جاتے ،ان کے قریبی رشتہ داروں  کی خبرگیری کرتے اوران کے لئے دعاکرتے۔

ملا رحمت اللہ شہید کی فوجی صلاحیت اور استحکام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بار عید کے موقع پر صوبہ میدان شہر میں فرنٹ لائن کے اکثر مجاہدین چھٹی پہ گئے تھے، احمد شاہ مسعود کے جنگجو نے بڑا حملہ کیا ،اس وقت ملا رحمت اللہ اخند صرف 8 ساتھیوں کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے اور دشمن کے 300 اہلکاروں نے اچانک حملہ کیا اور کچھ علاقوں پر قبضہ بھی کیا لیکن بعد ازاں اللہ کی مدد سے انہوں نے دشمن کا حملہ پسپا کر دیا اور اس کو بھاری جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار کر دیا ۔

ملا رحمت اللہ اخند نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیکر 23 سال کی عمر میں شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہوئے ،انہوں نے پسماندگان میں صرف ایک بیٹا چھوڑ دیا جو ابھی حصول علم میں مصروف ہے لیکن ان کا جہادی محاذ اب بھی فعال اور امریکہ کے خلاف جہاد میں سرگرم عمل ہے اور اس بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیئے ہیں. امریکہ کے خلاف جہاد میں ان کے خاندان کے چھ افراد شہادت کے اعلی مقام پر فائز ہو چکے ہیں ۔

رحمھم اللہ تعالی