مولوی عبدالقدوس سےایک نشست

  انٹرویو : حبیب مجاہد مولوی عبدالقدوس 28سالہ نوجوان ہیں  ۔ بادغیس کے ضلع مقرکے رہائشی ہیں  ۔ موصوف نے افغانستان اور پاکستان کے مختلف مدارس میں  اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں  میں  جہاد کے مقدس میں  حصہ بھی لیا ۔ مولوی صاحب بادغیس میں […]

 

انٹرویو : حبیب مجاہد

مولوی عبدالقدوس 28سالہ نوجوان ہیں  ۔ بادغیس کے ضلع مقرکے رہائشی ہیں  ۔ موصوف نے افغانستان اور پاکستان کے مختلف مدارس میں  اپنی دینی تعلیم کی تکمیل کی ۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مختلف علاقوں  میں  جہاد کے مقدس میں  حصہ بھی لیا ۔

مولوی صاحب بادغیس میں  امریکہ کے خلاف حالیہ جہاد کا احیاءکرنے والے عظیم مجاہد مولوی دستگیر صاحب رحمہ اللہ کے قریبی ساتھیوں  میں  سے ہیں  ۔ جنہوں  نے بہت سخت حالات میں  خالی ہاتھوں  مگرقوی ایمان کے ساتھ جہاد کا آغاز کیا ۔

مولوی عبدالقدوس صاحب نے جہادی زندگی میں  کچھ مدت تک بادغیس کے ضلع ”بوم “میں  ذمہ دار کی حیثیت سے کام کیا ۔ اور اب باد غیس ہی میں  دھماکہ خیز مواد کی فراہمی اور فدائی حملوں  کے ذمہ دار کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے ہیں  ۔ مولوی عبدالقدوس صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی جس میں  بادغیس جیسے اہم جہادی سرزمین کے جہادی احوال کے متعلق بات چیت ہوئی جو افادہ  قارئین کے لئے زیب قرطا س کی جاتی ہے :

سوال: محترم مولوی صاحب سب سے پہلے بادغیس میں  جہاد کے آغاز کے متعلق ہمیں  معلومات دیں ، وہاں  عملی جہاد کا آغاز کب اور کیسے ہوا ؟

جواب : نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امابعد :

آپ کے سوال کے جواب میں  یہی کہوں  گا کہ جب افغانستان کے اسلامی امارت پر امریکہ نے یلغار کردیا تو ملک کے دیگر علاقوں  کی طرح شمالی علاقے بھی طالبان کے کنٹرول سے نکل گئے ۔ اس وقت افغانستان کے دیگر خطوں  کی طرح بادغیس میں  بھی چوروں  ،ڈاکوؤں  اور پرانے غنڈہ ٹیکس لینے والے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس مومن و مجاہد ملت پر مظالم ڈھانے شروع کردیے ۔ یہ میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ 200یا 300کی تعداد میں  یہ ڈاکوکسی گاؤں  میں  جاتے اور جس پر بھی شک گذرتا، کہ وہ طالبان سے تعلق یا محض ہمدردی رکھتا ہے تو اس کا گھر لوٹ لیتے ۔ ویسے تو یہ بدمعاشوں  کے ٹولے سب کچھ لوٹ کر لے جاتے مگر زیادہ کوشش ان کی یہ ہوتی کہ کوئی اسلحہ اور دھماکہ خیزمواد وغیرہ برآمد کر لیا جائے اور آلات حرب چھین کر آئند ہ کے لیے مزاحمت کے قابل نہ چھوڑا جائے ۔ اس بات میں  کوئی مبالغہ نہیں  اگر میں  کہوں  کہ سقوط کے چند سالوں  بعد بادغیس میں  ایسا کوئی بھاری یا ہلکا اسلحہ نہ رہا جس کو استعمال میں  لاکر پھر سے جہادی عمل کا آغاز کیا جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی تسلط کے بعد کئی سال تک بادغیس میں  جہادی عمل کا آغا ز نہ ہوسکا حالانکہ وہاں  کے لوگوں  میں  جہادی جذبہ اور جہادی احساسات کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں  مگر جنگ کے لیے اسلحہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور وہاں  ایسی کوئی چیز بچی نہیں  تھی جس کو استعمال میں  لایاجائے ۔

2007میں  ، میں  اور بادغیس کے سابق جہادی مسؤل مولوی دستگیر صاحب ہلمند میں  پڑھتے تھے اورپڑھائی کے ساتھ ساتھ جہادی کار روائیوں  میں  بھی حصہ لیتے رہتے ۔ اس وقت تک بادغیس میں  کوئی اہم جہادی کارروائی نہیں  ہوئی تھی ۔ اس وقت امارت اسلامیہ کی جانب سے مولوی عبدالرحمن حقانی صاحب بادغیس کے لیے ذمہ دار کی حیثیت سے متعین کیے گئے تھے ۔ ان کے ساتھ مشورہ کے بعد میں  اور مولوی دستگیر صاحب افغانستان کے جنوب سے بادغیس کی طرف جہاد کی نیت سے روانہ ہوئے ۔ اس وقت ہم اس قدر کسمپرسی کا شکار تھے کہ سفر خرچ بھی راستہ ہی میں  ختم ہوگیا بہر حال بادغیس پہنچ کر ہم نے بالامرغاب کے ضلع سے کام کے آغاز کا فیصلہ کیا ۔ پہلی مرتبہ ہم اسلحہ کی تلاش میں  بالا مرغاب کے ایک گاؤں  پینرک میں  ایک جہادی کمانڈرکےپاس گئےکہ وہ اسلحہ کی فراہمی میں  ہمار تعاون کریں ۔اللہ انہیں  جزائےخیردے۔انہوں  نےایک  کلاشنکوف ہمیں  فراہم کیا ۔ پھر اسی ضلع کے غورتو کے علاقے میں  مولوی بازمحمد صاحب نے ایک راکٹ دیا ۔ اسی طرح وقت گذرنے کے ساتھ ہمیں  کچھ اور ساتھی بھی مل گئے ۔ ہم نے ان محدود وسائل سے جہاد کا آغاز کیا ۔جب ہمارے ساتھیوں  کی تعداد 12ہوگئی تب پہلی بار ہم نے دشمن کے این جی او کے سکیورٹی پر حملہ کیا تھا ۔ اگلی رات ہم نے” بالا مرغاب“میں  ایک حملہ کیا اور پھر مختلف چیک پوسٹوں  پر حملوں  کا ایک سلسلہ شروع کردیا ۔ شروع میں  ہم صرف رات کو کارروائیاں  کرتے لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ہمیں  مال غنیمت میں  بہت سارا اسلحہ اور دیگر چیزیں  ہاتھ آئیں  ۔ ہمارے ساتھیوں  میں  بھی اضافہ ہوتا گیا ۔ہم اسلحہ کے حوالے سے بھی”خود کفیل “ہونے لگے۔ یہاں  بالا مرغاب کے قریب ایک پہاڑی علاقہ ہے جس کا نام ”حوض کبود “ ہے یہاں  ہم نے ایک مرکز قائم کیا ۔بادغیس میں  جب یہ بات مشہور ہوگئی کہ یہاں  مجاہدین پیدا ہوگئے ہیں  تو جس علاقے میں  بھی ایسے لوگ تھے جو جہادی جذبہ اور شوق رکھتے تھے اور انہیں  بس ایسی کسی اطلاع کا انتظار تھا وہ سب یہاں  جمع ہونا شروع ہوئے ۔ اس طرح مجاہدین کی قوت اور ان کے اسلحے میں  اضافہ ہونے لگا ۔ افرادی اور اسلحہ کی قوت میں  اضافہ ہونے کے بعد ہم نے اپنی کارروائیاں  دوسرے علاقوں  جیسے ”مقر، درہ بوم “وغیرہ تک پھیلادیں  اور کئی وسیع علاقے فتح کئے ۔ اس وقت مولوی دستگیر شہید رحمہ اللہ ہمارے عمومی انتظامی کمانڈر تھے ۔ اس طرح بادغیس سے ہمارے کام کا آغاز ہوا ۔

دوسال بعد مولوی دستگیر صاحب ہر ات کے ایک علاقے میں  گرفتار ہو گئے ، چھ ماہ دشمن کی قید میں  رہے اور جب رہا ہوکر آئے تو بلا کسی وقفہ او ر تعطل کے پھر سے کا م کا آغاز کیا ۔ ان کے کمان میں  ہم نے ان دنوں  بالامرغاب ہی کے ایک علاقے ”اکازو “ میں  وہ بڑا اور تاریخی معرکہ جیتا جس میں  دشمن کی گاڑیوں  اور اسلحہ کا ایک بڑا کانوائے ہمارے ہاتھ لگا ۔ اس معرکے میں  45گاڑیوں  میں  سے آدھی تعداد مجاہدین کے حملوں  میں  تباہ ہوگئی جبکہ بقیہ آدھی تعداد صحیح سالم ہمارے ہاتھ آئی ۔ اس حملے میں  دشمن کے کئی فوجی زندہ ہمارے ہاتھ آئے جبکہ اسلحہ تو اتنا ہمارے ہاتھ لگا کہ اب تک وہ اسلحہ ہمارے استعمال میں  ہے ۔ اس معرکے میں  ہمیں  درجنوں  کی تعداد میں  ہلکا اسلحہ ، مارٹر ، ہشتاد ودو توپ ۔ دوشکے ،ثقیل اور دیگر کئی قسم کا اسلحہ شامل تھا۔ اس فتح کے بعد اللہ کی نصرت سے بادغیس میں  جہاد پوری قوت سے جاری ہے ۔ اور پھر ایسا وقت بھی آیا کہ بادغیس کی سرزمین دشمن کے وجود سے پاک ہوگئی ۔

موجو دہ دور میں جو بادغیس میں  جہادی عمل پوری قوت سے رواں  دواں  ہے سچ تو یہ ہے کہ یہ ان صاحب عزیمت متقدمین مجاہدین کی ہمت ، اخلاص اور قربانیوں  کی برکت ہے جنہوں  نے سخت سے سخت حالات میں  بھی اپنے عزائم کو متزلزل ہونے سے بچائے رکھا ۔ اور آنے والے دور میں مجاہدین کے لیے ایک رہنما مثال چھوڑ گئے ۔ ان لوگوں  میں  سے جو شہادت سے سرفراز ہوچکے ہیں  مولوی دستگیر ، مولوی اسماعیل ، مولوی باز محمد ، جمال الدین منصور، عبدالرحمن اخندزادہ ، مولوی سید حکیم ، ملا امرالدین ، ملا فضل الدین ، مولوی داؤد ، مولوی عبدالرازق ، سید علی شاہ آغا ، ملا سور گل رحمہم اللہ اور کچھ دیگر مجاہدین کے نام قابل ذکر ہیں  ۔

سوال : بہت شکریہ محترم مولوی صاحب ، بادغیس کے گذشتہ کئی سالوں  کے جہادی سفر کے متعلق آپ نے بہت اچھی معلومات دیں  ۔ اگر ہم موجودہ حالات کی طرف آئیں  تو بادغیس کے موجودہ حالات کے متعلق آپ کیا کہیں  گے ؟

جواب : الحمد للہ باد غیس میں  جیساکہ آپ کو معلوم ہوتا رہتا ہے مجاہدین کی کارروائیاں  پوری قوت سے جاری ہیں ۔ اس علاقے کے اکثر لوگ بالفعل یا بالقوہ مجاہد ہیں  ،عام لوگ جو مقامی بدمعاشوں  اور غاصبوں  کے مظالم سے تنگ آئے ہوئے تھے آج جہاد کے مقدس راستے کو نجات کا واحد راستہ سمجھتے ہیں  ۔ جہاد کی برکت سے بادغیس کا اکثر حصہ دشمن کے وجود سے پاک ہوچکا ہے ۔ بالا مرغاب ، غورماچ ، آب کمری ، سنگ آتش ،مقر ،قادس ، جوند اور درہ بوم سمیت تمام اضلاع میں  عملا مجاہدین کی حکومت ہے ۔ اکثر اضلاع میں  دشمن کا وجود محض مرکز اور اس کے نواح تک محد ود ہے ۔ اگر اعداد وشمار سامنے رکھ کربات کریں  تو ہماری گنتی کے مطابق بالا مرغاب میں  1050، غور ماچ میں  500اور درہ بوم میں  419مسلح مجاہدین جنگ کے لیے ہر وقت تیار بیٹھے ہیں  ۔اسی طرح بقیہ اضلاع میں  بھی علاقے کی

ضرورت کے مطابق ہماری تشکیلیں  جاری ہیں  ۔ ان مجاہدین کے علاوہ ہمیں  پورا یقین ہے کہ ضرورت پڑنے پر پورا بادغیس ہمارے ساتھ ہوگا ۔ بادغیس کا صرف ایک علاقہ ایسا ہے جہاں  جہادی کارروائیاں  کمزور ہیں  وہ بادغیس صوبے کے مرکز ”قلعہ نو“ کا علاقہ ہے ۔ اب تک اس علاقے میں  مجاہدین نے ایسی کوئی قابل توجہ کامیابی حاصل نہیں  کی ۔مجاہدین کو ایسے کسی موقع کی تلاش ہے کہ جس میں  اس اہم علاقے تک کارروائیاں  پھیلائیں  ۔

سوال : اکثر شمالی اور شمال مغربی صوبوں  میں  دشمن نے کئی بار یہ کہاہے کہ گذشتہ سال کے منظم آپریشنوں  ،جاسوسی نظام اور کرائے کے پولیس کے ذریعے وہاں  سے مجاہدین کی جماعتوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے ۔ اس کے متعلق اگر ہمیں  معلومات دی جائیں  کہ بادغیس کے متعلق دشمن کی یہ بات کہاں  تک درست ہے توبڑی مہربانی ہوگی ۔

جواب : یہ حقیقت ہے دشمن نے دیگر شمالی صوبوں  کی طرح بادغیس میں  بھی یہ سب کارروائیاں  کیں  مگر مقامی لوگوں کا تعاون نہ ہونے کی وجہ سے دشمن کے یہ سب پروگرام ناکام رہے ۔ دشمن کے وسیع ہوائی اور زمینی آپریشن کے مقابلے میں  شاید مجاہدین نے وقتی طورپر کوئی علاقہ خالی کرایا ہوگا مگر اس طرح سے علاقہ خالی کرنا گوریلاجنگوں  میں  معمول کی چیز ہے ۔ اسے تکنیکی شکست کہاجاتا ہے مگر مجاہدین واپس ان علاقوں  کی طرف گئے ہیں  اور دشمن بڑے مالی وجانی نقصانات اٹھانے کے بعد ان علاقوں  سے واپس نکلنے پر مجبور ہوا ہے ۔ مثال کے طورپر ”درہ بوم “ کے مضافات میں  واقع” نخچیر ستان “ایک پہاڑی اور اسٹریٹجک اہمیت رکھنے والا علاقہ ہے ۔ جو بادغیس کے کئی اضلاع کے ساتھ ملا ہوا ہے ۔ دشمن نے کچھ مدت پہلے اس علاقے میں  نہایت سخت کارروائیاں  کیں  اور فضائی وزمینی کارروائیوں  کے بعد یہاں  چیک پوسٹیں  قائم کیں  اور تقریبا 200اہلکار اس میں  ڈال دیے ۔ مگر چند دن بعد جب ان کا آپریشن ختم ہوا تو مجاہدین نے ایک دن اچانک گروپ حملہ کردیا ۔ اس حملے میں  300کے قریب مجاہدین شامل تھے ۔ اس حملے میں  مجاہدین نے دشمن کے سارے چیک پوسٹوں  کا خاتمہ کردیا ۔ دشمن کی فوج میں  سے کچھ تو موقع پر ہلاک ہوئے جبکہ کچھ اہلکاروں  نے بھاگ کر جان بچائی ، اور کچھ بم حملوں  میں  اڑگئے ۔ اب یہ علاقہ دشمن کی تسلط سے پوری طرح آزاد ہے ۔ اسی طرح دیگر جن علاقوں  کے مضافات میں  دشمن نے چیک پوسٹیں  قائم کی ہیں  ان کو رسد کی فراہمی ان کے لیے مسئلہ بن گیا ادھر ان کے یومیہ اخراجات پہلے سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں  ۔ اس لیے پے درپے ان علاقوں  سے دشمن کا انخلا جاری ہے ۔ جو لوگ گذشتہ سال کے سخت آپریشن کے دوران دشمن کی صف میں  کھڑے ہوگئے تھے اب واپس ہتھیار ڈال کر مجاہدین کی صفوں  میں  آرہے ہیں  ۔جیسا کہ اس سال جمادی الاولی کے آخری دنوں  میں  ضلع” قادس “میں  دشمن کے 50افراد نے اجتماعی طور پر مجاہدین کے سامنے ہتھیا ر ڈال دیے۔ اس طرح کے واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں  کہ دشمن کی ساری کوششیں  ناکام ہورہی ہیں  ۔ انتظامی طور پر ان کو کوئی کامیابی نہیں  ملی ہے ۔ اب محض ریڈیو کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا ہی ان کے پاس واحد طریقہ رہ گیا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے گرے ہوئے مورال کو اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں  ۔

سوال :          محترم مولوی صاحب : بادغیس میں  مجاہدین کی مزید فعالیت کے متعلق اگر کوئی مشورہ اور خیال آپ کے ذہن میں  ہو تو امید ہے آپ ہمارے ساتھ شریک کریں  گے ۔

جواب :           پورے افغانستان کی طرح بادغیس میں  بھی مجاہدین نے گذشتہ چند سالہ جہاد میں  بڑی بے مثال قربانیاں  دی ہیں  ۔ بہت سے خواب غفلت سے بیدار کرنے والے ہنگامہ خیز حماسی ترانے دنیا کو دیے اوراسلامی تاریخ میں  شانداراور رہنما یادگاروں کا اضافہ کیا ، نہایت افسوس سے کہنا پڑتاہے کہ مجاہدین کی یہ شجاعت بھری داستانیں  یوں  ہی پڑی رہ جاتی ہیں  اور اکثریت کا تو کسی کو علم بھی نہیں  ہوتا۔ میں  پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ اگر افغانستان کے طول عرض سے اس رواں  حالیہ جہاد میں  مجاہدین کی دی ہوئی قربانیوں  اور ان کے کارناموں  کو جمع کیا جائے تو یہ اسلامی تاریخ کا ایک درخشندہ اور بے مثال باب ہوگا ۔ آپ نے مجھ سے اس بارے میں  جوسوال کیا ہے تو میں  اس حوالے سے بطور مثال ایک بچے کا واقعہ سناتاہوں جس سے ایک 12سالہ بچے کی ملی غیرت اور جہادی جذبے کا پتہ چلتاہے ۔

کچھ عرصہ قبل بادغیس میں  ضلع ”درہ بوم “ میں  امریکیوں  نے آپریشن کا آغاز کیا۔ امریکیوں نے اس ضلع کے ایک علاقے ”کابلچی “میں  تلاشی کے لیے داخل ہوئے۔ اس گاؤں  میں  ایک مسجد ہے جس کے امام مولوی پیر محمد صاحب کے نام سے موسوم ایک معروف بزرگ اور معمر عالم دین ہیں  ۔ان کے ساتھ چند طالب بچے بھی اس مسجد میں  رہتے تھے ،جن کو وہ دینی کتابیں  وغیرہ پڑھاتے تھے ۔ جب اس علاقے اور گاوں میں  امریکی آئے تو اس مسجد کے ایک 12سالہ طالب علم نے جو بڑی مدت سے امریکا کے خلاف جہاد کا جذبہ دل میں  رکھتا تھا اس موقع کو غنیمت سمجھا اور گھاس کاٹنے والی ایک درانتی لے کر مسجد کے دروازے کے پیچھے کھڑا ہوگیا ۔ جب ایک امریکی فوجی نے مسجد کے اندر جھانک کر دیکھا تو اس نے اپنی پوری قوت سے امریکی فوجی کے چہرے پر درانتی سے وار کیا۔ امریکی فوجی کے چہرے سے خون کا فوارہ چوٹ گیا۔ امریکی فوجیوں  نے اسی وقت اس بچے کو گرفتار کرلیا چونکہ وہ بہت چھوٹا تھا اور گاؤں  کے لوگوں  نے بھی بہت زیادہ اصرار کیا تھا اس لیے اسے رہا کردیا گیا۔ اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے ہیں  ۔ میرے خیال میں  سمجھنے کے لیے یہی مثال کافی ہوگی ۔

سوال :          مولوی صاحب ایک عام سے سوال کی طرف آتے ہیں  ۔ یہ ہمارا آخری سوال ہے چند دن قبل رواں  سال کے دو مئی کو کابل حکومت نے امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ کیا جس کے متعلق اب تک تبصرے جاری ہیں  ، بادغیس کے ایک مجاہد کی حیثیت سے اس موضوع پر آپ کیا کہنا چاہیں  گے ؟

جواب : کرزئی کی جانب سے دو مئی کو اوباماکے ساتھ سٹریٹجک تعاون کا جو معاہدہ ہوا اس واقعے کے بعد 5مئی کو امریکیوں  نے بادغیس کے ضلع مرغاب کے ایک علاقے” منگام“میں  خانہ بدوشوں  کے ایک خیمے پر بے رحمانہ بمباری کردی جس میں  14خواتین اور بچے شہید جبکہ 4افراد زخمی ہوگئے ۔ یہ واقعہ میرے اور میرے جیسے دیگر کئی لوگوں  کے ہاں  کرزئی کے سٹریٹجک معاہدے کی پہلی کامیابی ہے ۔ اس معاہدے کے بعد کرزئی نے اعلان کیا کہ غیر ملکی افواج کا افغانستان پر تسلط اب قانونی ہوگیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بادغیس کے خانہ بدوشوں  پر بے رحمانہ بمباری کو بھی ایک قانو نی کام سمجھیں  گے ۔

میر ی نظر میں  یہ معاہدہ کوئی معنی نہیں  رکھتا اس لیے کہ امریکا اس معاہدے سے قبل طاقت کے بل بوتے پر اس سر زمین پر اترا ہے ، کرزئی امریکا کا کٹھ پتلی ہے اور جب تک امریکا یہاں  ہے صورتحال یہی رہے گی ۔ اس معاہدے کے ذریعے کابل حکومت نے اپنی اصلیت افغان عوام کو دکھا دی ۔ اور اس بات کا اعلان کردیا کہ وہ اس حد تک بد فطرت ہیں  کہ سٹریٹجک تعاون کے نام پر افغانستان کو بیچ بھی سکتے ہیں  ۔

میری سوچ کے مطابق افغانستان ایک مجاہد ، مومن اور استقلال پسند ملت ہے ۔ اس سرزمین میں  جہادی جذبہ زندہ اور تابندہ ہے ۔ یہ ملت اب بھی یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ ایک غاصب دشمن سے اپنی آزادی واپس چھین کر حاصل کرلے ۔ کرزئی کبھی بھی اس مجاہد مٹی کاحقیقی روحانی فرزند اورنمائندہ نہیں  ہوسکتا ۔ یہ معاہدہ آقا اور غلام کے آپس کا معاملہ ہے جسے عوام کے سامنے لایا گیا ۔ افغانوں  کو اس کے متعلق زیادہ فکر مند نہیں  ہونا چاہیے ۔

شکریہ محتر م مولوی عبدالقدوس صاحب آپ کا بھی بہت بہت شکریہ ہمیشہ کامیاب وکامران رہو۔