صوبہ غزنی کےجہادی امورکےسربراہ مولوی رحمت اللہ سےملاقات

  عبدالرؤف حکمت صوبہ غزنی کا شمار افغانستان کے مرکزی صوبوں میں ہوتاہے جو لوگر، میدان وردگ،بامیان، دایکنڈی ، اروزگان ،زابل ،پکتیکا اور پکتیا صوبوں کے درمیان واقع ہے ،صوبہ غزنی افغانستان کا ایک تاریخی صوبہ ہے جو گنجان آبادی پر مشتمل ہے ۔ یہ صوبہ سترہ اضلاع پر مشتمل ہے اور اس کا مرکز […]

 

عبدالرؤف حکمت

صوبہ غزنی کا شمار افغانستان کے مرکزی صوبوں میں ہوتاہے جو لوگر، میدان وردگ،بامیان، دایکنڈی ، اروزگان ،زابل ،پکتیکا اور پکتیا صوبوں کے درمیان واقع ہے ،صوبہ غزنی افغانستان کا ایک تاریخی صوبہ ہے جو گنجان آبادی پر مشتمل ہے ۔

یہ صوبہ سترہ اضلاع پر مشتمل ہے اور اس کا مرکز غزنی شہر ہے جس کا شمار افغانستان کے اہم شہروں میں ہوتا ہے ۔ مولوی رحمت اللہ صاحب کا تعلق صوبہ غزنی کے مرکزسے ہے ۔آپ کافی عرصے سے صوبہ غزنی میں امارت اسلامیہ کی طرف سے جہادی امور کی نگرانی کے فر ائض سر انجام دے رہے ہیں نیز جہادی امور کا آپ ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں ،اس سے پہلے آپ ایک طویل عرصے تک صوبہ غزنی کے ایک بڑے جہادی محاذ کی کمانڈ کرتے رہے ہیں ،پھر اس کے بعد کچھ عرصہ تک صوبہ غزنی کے مشیر کی حیثیت سے بھی آپ نے فرائض سر انجام دئیے۔

صوبہ غزنی میں جاری جہادی کاروائیوں اور دشمن کو پہنچائے جانے والے نقصانات کے بارے میں ”شریعت “ کے نمائندہ کی ایک تفصیلی نشست ہوئی جس میں ہونے والی گفتگو قارئین کے لئے پیش خدمت ہے ۔

سوال : محترم مولوی صاحب! سب سے پہلے ہم اس ملاقات کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں ،اس کے بعد آپ سے درخواست ہے کہ صوبہ غزنی میں جاری جہادی کاروائیوں کے بارے میں ہمیں تفصیل فراہم کریں کہ وہاں دشمن کے خلاف جاری کاروائیوں کی آج کل کیا صورت حال ہے ؟

جواب :          الحمد لاھلہ والصلوة علی اھلھا اما بعد :

صوبہ غزنی میں مجاہدین کی جانب سے جاری کارروائیوں کے بارے میں ،آپ کو مختصر بتانا چاہوںگاکہ وہاں سترہ اضلاع میں سے ضلع ناور ،مالستان ،جاغوری کے مراکز اور اس کے علاوہ باقی چودہ اضلاع میں عمل مجاہدین کی موجودگی اورمنظم عملیات مسلسل جاری ہیں ۔

ان اضلاع میں ضلع ناوہ وہ ضلع ہے جو مکمل طور پر مجاہدین کے کنٹرول میں ہے اوریہاں سے دشمن کامکمل صفایاہوچکاہے ۔باقی اضلاع میں سے ضلع زنہ خان ، رشیدان اور گیرو وہ اضلاع ہیں جہاں دشمن مکمل طور پر مجاہدین کے محاصرے میں گھرا ہوا ہے ۔ ان مذکورہ بالاتین اضلاع میں دشمن کو ساری رسد ہوائی راستے سے فراہم کی جارہی ہے جبکہ زمینی راستہ سے مجاہدین کی رکاوٹ کی وجہ سے ان کیلئے فراہمی نا ممکن ہے ۔

باقی رہا مرکز اور دیگر اضلاع جیسا کہ انڈر ،دہ یک ،خواجہ عمری ،خوگ یانی ،قرہ باغ ،آب بند ،گیلان اور مقرتو ان کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ ان علاقوں کا ساٹھ فیصد سے زائد رقبہ مکمل طور پر مجاہدین کے زیر کنٹرول ہے ،یہاں تک کہ ان میں کچھ اضلاع ایسے بھی ہیں جہاں دشمن کا صرف دس فیصد علاقے پرکنڑول ہے ۔

سوال : صوبہ غزنی میں دشمن کی موجودگی کے بارے میں ہمارے قارئین کے لئے کچھ معلومات فراہم کیجئے کہ وہاں دشمن کتنی تعداد میں موجود ہے اور وہ کن صورتحال سے دو چار ہے ۔

جواب:  ہماری اطلاعات کے مطابق صوبہ غزنی میں تقریباً دس ہزار غیر ملکی فوجی موجود ہیں جن میں سے ڈھائی ہزار تو پو لینڈ کے فوجی ہیں اور باقی آٹھ ہزار امریکی ہیں ۔بہت سے علاقوں میں ان کے ٹھکا نے موجود ہیں جس میں سے زیادہ تر ان اضلاع کے مرکزی مقامات پر واقع ہیں ۔صوبہ غزنی میں ان کے بڑے ٹھکانے تین ہیں ایک مرکز کے مغربی جانب، دوسرا قرہ باغ کے گومیشک کے مقام پر جبکہ تیسراگیلان کے مرکز میں واقع ہے ۔

اگر مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو صوبہ غزنی کے قرہ باغ ،اندڑ،گیلان اور دہ یک کے مقامات پر دشمن کی موجودگی وسیع پیمانے پر ہے ۔لیکن باقی اضلاع میں صرف سمبولیک کے مقام پر دشمن کی موجودگی ہے جو صرف اس ضلع کی مقامی آبادی کی حفاظت کا ڈرامہ رچاکر یہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور وہاں ان کے چند دفاعی چیک پوسٹ قائم ہیں ،باقی سارے علاقے ان کے ناپاک وجود سے پاک ہیں ۔

صوبہ غزنی کے مرکزی شہر کی صورتحال یہ ہے کہ اطراف کے سارے علاقے مجاہدین کے زیر کنٹرول ہیں جس کی وجہ سے مجاہدین شہر کے اندر بڑی آسانی سے اپنی کاروائیاں سرانجام دیتے ہیں ،مثال کے طور پر شہر کے مغربی جانب دگوڈلی اھو گاڑان نامی گاؤں جو آدھے کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،اسی طرح مشرقی جانب خداداد گاؤں اور جنوب کی طرف سب سے قریبی گاؤں قلعہ امیر محمد خان یہ سارے علاقے مجاہدین کے زیر کنٹرول ہیں ، جس کی وجہ سے دشمن ان میں آسانی سے داخل نہیں ہوسکتا ۔

سوال : کچھ عرصہ پہلے امارت اسلامیہ کے قائدین کی جانب سے دشمن کے خلاف سال رواں کے الفاروق نامی آپریشن کے آغاز کااعلان کیا گیا ، اس بارے میں صوبہ غزنی میں اس آپریشن کی کیا صورتحال ہے ؟۔

جواب : صوبہ غزنی میں الفاروق آپریشن کی کاروائیاں بڑی منظم اور وسیع پیمانے پر سر انجام دی گئیں۔ ہم نے پہلے ہی سے ان کاروائیوں کیلئے تیاری مکمل کرلی تھی چنانچہ جس دن کاروائی کا اعلان کیاگیا تو میری اپنی آنکھوں کا مشاہدہ ہے کہ اس دن مجاہدین نے صوبہ غزنی کے تمام اضلاع میں دشمن کے خلاف باقاعدہ کارروائیوں کا آغاز کرلیا ،اور اس کے بعد بھی بغیر کسی وقفے کے مجاہدین کی یہ کاروائیاں اب تک جاری ہیں۔ان کاروائیوں کے دوران مختلف اضلاع میں دشمن کے ٹینکوں کو بموں سے اڑا گیا ، مثال کے طور پر خواجہ عمری کے مقام پر صرف چوبیس گھنٹوں میں دشمن کے چھ ٹینک اور قرہ باغ کے مقام پر آٹھ ٹینک ان کاروائیوں میں تبا ہ کئے گئے ۔

صوبہ غزنی کے مرکزی شہر میں گورنر کے دفتر اور امن وآمان کے ذمہ دار پر بھی مجاہدین کی طرف سے باقاعدہ فائرنگ کی گئی ،اسی طرح ضلع قرہ باغ میں امیر محمدخان نامی گاؤں کے مقام پر دشمن کا ایک ہیلی کاپٹر مجاہدین کی راکٹ کا نشانہ بنا جس میں دشمن کے کئی فوجی واصل جہنم ہوئے۔

کچھ عرصہ پہلے صوبہ غزنی میں ضلع اندڑ اور ضلع دہ یک کے مقام پر مجاہدین کے ہاتھوں دشمن کا ایک خطرناک منصوبہ ناکام ہواجس میں انہوں نے مجاہدین کی جاسوسی کے لئے مقامی لوگوں کو بھرتی کرناتھا ۔

سوال : صوبہ غزنی کے قریب سے دشمن کے سپلائی کے دواہم راستے گزرتے ہیں ،جس میں سے ایک کابل سے قندھار کا راستہ ہے جبکہ دوسرا پکتیکا کے قریب سے گزرتا ہے ،ان دونوں راستوں کو کنٹرول کرنے کیلئے آپ لوگوں نے کیا منصوبہ بندی کی ہے ؟

جواب :           یقینا یہ دونوں راستے دشمن کیلئے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اسی وجہ سے ان دونوں راستوں پر ہماری توجہ زیادہ ہے ۔قندھار اور کابل کے راستے پر تو تقریبا ہر وقت دشمن پر دھما کے اور براہ راست فائرنگ کی جاتی ہے ،جبکہ غزنی شہر سے جب دشمن کا کوئی قافلہ نکلتا ہے تو اپسندی ،نوغی اور اس کے ساتھ لگے ہوئے اندڑ کے نانی مقام اور اسی طرح ملا نوح بابا کے علاقے ،قرہ باغ ،گیلان اور مقر کے اضلاع میں میں بھی جگہ جگہ دشمن کے قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں ۔اسی طرح پکتیا کے مقام پر بھی دشمن کے قافلے جگہ جگہ مجاہدین کی کاروائیوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ۔

حاصل یہ کہ ان دونوں راستوں پردشمن کئی طرح کے جانی اورمالی نقصانات سے دوچارہوتاہے اوران کا کوئی بھی قافلہ صحیح سالم منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتا ۔

سوال :آپ نے ضلع اندڑ  میں مقامی جاسوسوں کی بھرتی کی بات کی ، جبکہ اس کے بارے اخبارات نے مختلف رپورٹس شائع کئے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں نئے اسلحہ بردار لوگ پیداہوگئے ہیں جو اپنے آپ کو مجاہدین ظاہر کررہے ہیں ،جبکہ پارلیمنٹ میں صوبہ غزنی کے پرانے نمائندے خیال محمد کا کہنا ہے کہ اس کے کہنے پر یہ مقامی لوگوں کا ایک لشکر ہے ،اسی طرح کچھ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مقامی جاسوس ہیں ،اس واقعہ کی اصلیت کے بارے میں کیا آپ ہمیں کچھ بتا سکتے ہیں ؟

جواب :اس بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ یہ اسلام دشمن قوتوں کا ایک شیطانی منصوبہ تھا جسے اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے مکمل طور پر ناکام بنادیا ۔اس واقعہ کی اصل حقیقت یہ تھی کہ چندبرس قبل صوبہ غزنی میں اغیار کے دو زرخرید غلاموں نے جن میں سے ایک سابق گورنر فیضان تھا اور دوسرا سابق رکن پارلیمنٹ مامور جبار تھا ، ان دونوں کی یہ کوشش تھی کہ کسی طرح صوبہ غزنی میں مقامی پولیس کا سسٹم نافذ کیا جائے جسے اربکیان بھی کہتے ہیں تاکہ یہ لوگ مجاہدین کی راہ میں مشکلات اور رکاوٹ پیدا کر سکیں،لیکن ان کی کوششوں کا ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ ہماری معلومات کے مطابق صوبہ غزنی کے دو سابقہ حکومتی عہدے داروں اسد اللہ خالد اور فیضان نے صوبہ غزنی میں موجود پولیس بنانے کا ٹھیکہ امریکہ سے لیا ۔ گزشتہ موسم سرما میں جب اس علاقے میں مجاہدین کی موجود گی کم تھی انہوں نے اپنی کوششوں کا باقاعدہ آغاز کیا ، اور اس منصوبہ پر بہت سا پیسہ خرچ کیا ،اس منصوبہ کے ذمہ دار خود فیضان اور اسد اللہ خالد کے نمائندے کے طور پر مسعود غور بندی نامی ایک شخص تھا ،انہوں نے غزنی شہر کے وسط میں فرخی نامی ہوٹل میں ایک دفتر کھولا ،لیکن لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے اس کے باہر ”دفتر حزب اسلامی “ کا بورڈ لگایا ، چنانچہ یہاں سے انہوں نے ضلع اندڑ کے آس پاس واقع گاؤں دیہات اور دیگرعلاقوں میں جیسا کہ گانڈہ پیر ،گوڈلی، قدم خیل ،پایندئی ،صاحب خان اور عبد الرحیم جیسے علاقوںمیں اپنے کام کا باقاعدہ آغاز کیا ،ان مذکورہ علاقوں میں انہوں نے چیک پوسٹ بھی بنائے اور ساتھ ہی موٹر سائیکلوں پر باقاعدہ گشت کا آغاز بھی کردیا۔

یہ لوگ مبینہ طو ر پر صوبہ عزنی کے مرکز کے جانب سے استعما ل ہورہے تھے اور ملک کے مختلف علاقو ں سے ان کے پا س جنگوؤں کوبھیجا جا نے لگا ۔یہ لوگ دن بہ دن پھیلتے جارہے تھے اور ساتھ ہی انہوں نے مجا ہدین کے خلاف ایک زہریلے پرو پیگنڈے کا بھی آعازکیا اور علی الاعلان یہ کہا کہ ہم کسی کو کرزئی حکو مت کے ا ہل کا روں پر حملہ کرنے کی اجا زت نہیں دیں گے ۔

یہ مذکورہ گاؤں کے لوگوں کو یہ دھو کہ دیتے رہیں کہ ہم مجاہدین ہیں لیکن عوام واضح طور پر دیکھ رہی تھی کہ انہوں نے گنڈہ ییر کے گاؤں میں سابقہ حکومتی عہدے دا رفیضان کے قلعے میں اپنا چیک پوسٹ بنا یا ہو ا ہے اورحکومت کی طرف سے انہیں ہر قسم کا را شن اور اسلحہ فراہم کیاجارہاہے اس کے علاوہ انہوں نے بیس مسافر مجاہدین کوگرفتار کرکے حکومت کے سپرد کیا اسی طرح ایک دوسری کا رروائی میں انہوں نے دو مجاہدین کو شہید اورتین کوزخمی کیا لیکن بعد میں مجاہدین کی کاروائیوں کے نتیجے میں زیادہ ترعلاقہ ان سے خالی کردیا گیا اوران کے اسلحہ اور سازوسا مان کو مجا ہدین مال غنیمت کے طورپر اپنے قبضہ میں لے لیا ۔

ابھی صرف ضلع کے آدھے کلو میٹر پر ڈ گوڈ نامی گاؤں میں انکی چند چیک پو سٹیں ہیں باقی سارا علاقہ ان سے خالی کردیا گیاہے اسی طرح انہوں نے صو بہ غزنی کے ضلع دہ یک میں بھی پولیس سسٹم قا ئم کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ کرسکے ۔

یہ لوگ رات کوچند گاڑ یوں میں اسلحہ سے لیس ہوکر آئے اور مذکو رہ مقا م پرڈیر ہ ڈال دیا ،لیکن جب مجاہدین کوان کے بارے میں علم ہوا تو اسی صبح ان کے خلاف کارروائی کی اورایک گھنٹے کے لڑائی کے دوران وہ سارا اسلحہ مجاہدین کے پاس چھوڑ کر راہ فراراختیارکی۔

الحمد للہ یہ تمام مشکلات کا مل طورپران سے جان چھوٹ گئی ہے ۔یہ منصو بہ اس لحا ظ سے انتہائی خطرناک تھا کہ دشمن مجاہدین کے نا م پر قو م کو دھوکہ دے کر مقا می لوگوں کے ہاتھوں مجاہدین کے خلا ف کاروائی کرکے امریکی مقا صد کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہ رہاتھا ۔

اسی وجہ سے مذکورہ مسلح گروہ کویاتو مجا ہدین کا نام دیا گیا اور یا مقا می مسلح لوگوں کے لشکر کا ۔لیکن حقیقت میں یہ امریکہ کے کرایہ کے ٹٹو تھے جو امریکی دولت ،اسلحہ اور منصوبہ کے ذریعے اسد اللہ خالد ،فیضا ن ،اور مامور جبار جیسے امریکی ایجنٹو ں کے زیر قیا دت استعما ل کئے جارہے تھے تاکہ ضلع اندڑمیں مجاہدین کیلئے مشکلات پیداکی جاسکے اوراس طرح امریکی حملے کیلئے زمین ہموار کرسکیں۔

سوال : پچھلے دنوںصوبہ غزنی عصری تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے موضوع سخن رہا جسے دشمن میڈیا نے خوب کوریج دی ۔ اس بارے میں آپ قارئین ”شریعت “ کواصل حقیقت کے بارے میں کچھ بتاناپسند کریں گے ؟۔ نیز صو بہ غزنی میں تعلیمی اداروں کی مجموعی کیفیت کے بارے میں بھی آگاہ فرمائیں کہ آج کل وہاں کیاصور تحال ہے ؟۔

جواب: تعلیمی اداروں کی بند ش کے بابت بتاتا چلوں کہ یہ بھی دشمن کی طرف سے خالص پر و پیگنڈ ہ تھا وہ اس بات کوپرنٹ میڈیا کے ذریعے دنیا کے سامنے اس طرح پیش کر رہے تھے کہ مذکو رہ تعلیمی ادارے مجاہدین کی جانب سے بند کئے گئے ہیں حالا نکہ یہ بات بالکل حقیقت کے بر خلا ف اورسفید جھوٹ ہے۔

اصل بات یہ تھی کہ اس سال موسم سر ما کے دوران کرزئی حکومت اور امریکیو ں نے مجاہدین کے خوف سے موٹر سائیکل اور سائیکل کی سواری پر پابندی عائد کی اور صوبہ غزنی کے مزکز اور ضلع اندڑ اور دہ یک کے رہنے والوں کو وارننگ دی گئی کہ اگر کسی کو مو ٹر سائیکل پر سوار دیکھا گیا تواسے مار دیاجائیگا دشمن اس بارے میں اس قد ر سنجیدہ تھا کہ ایک مرتبہ ضلع دہ یک کے علی قلعہ نامی مقام پر ایک مو ٹر سائیکل سوا ر پر جیٹ طیاروں سے بم بھی گرائے گئے۔

صو بہ غزنی میں عام لوگ اور طلبہ واساتذہ انہی سواریوں سے استفادہ کیاکرتے تھے مثال کے طو ر پر ضلع دہ یک کے تعلیمی اداروں میں اساتذہ اورطلبہ تعلیمی اداروں میں آنے کے لئے موٹر سائیکل استعمال کرتے تھے۔اس پابندی سے اساتذہ اورطلبہ کی آمدورفت تقریبا ناممکن رہی جس کا براہ راست اثرتعلیمی اداروں پر پڑا اوریوں اکثر تعلیمی ادارے بند ہوگئے مثلاً غزنی کے کئی کا لج ہمارے زیر انتظام چل رہے ہیں،اس پابندی کے بعد وہاں مو جو د تعلیمی اداروں کے اساتذہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں سخت مشکلات کا سامنا ہے اگر ہم احتجا جا تعلیمی ادارے بند رکھیں تو تمہاری طر ف سے تو کو ئی اعتر اض نہیں ہوگا ۔ ہم نے جواب میں صر ف اتنا کہا کہ ہمیں آپ کے احتجا ج پر کوئی اعتر اض نہیں ہے چنانچہ اس طرح انہوں نے مذکو رہ اضلاع میں تمام تعلیمی ادارے بند کرکے غزنی شہر میں باقاعدہ مظاہر وں کا اغا ز کیا جس پر”الٹاچورکوتوال کو ڈانٹے “کے مترادف دشمن نے یہ الزام بھی طالبان کے سرتھوپ دیا اورکہا کہ طالبان نے تعلیمی ادارے بند کردئے ہیں۔

لیکن میں بتانا چاہتاہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ کوئی مجاہد کبھی کسی معلم یا طالب علم کی راہ میں روکاٹ بن کر کھڑا ہواہو ۔یااس نے کسی تعلیمی ادارے کوبند کیا ہو،یہ مذکورہ تعلیمی اداروں کے اساتذہ کا اپنا احتجاج تھا جسے انہوں نے پایاتکمیل تک پہچایا اگر یہ بات حقیقت ہوتی کہ یہ تعلیمی ادارے مجاہدین نے بند کئے ہیں،توپھروہ تعلیمی ادارے جوصوبہ غزنی کے مرکز میں دشمن کے زیرانتطا م علاقوں میں واقع ہیں کیوں بند پڑے تھے ۔

مجموعی طور پرصوبہ غز نی میں تعلیمی اداروں کی صور تحال اطمینان بخش ہے تمام اضلاع میں دینی مدارس اورعصری تعلیم گاہیں فعال ہیں ۔اس سا ل ان اضلاع میں بھی جہاں پہلے تعلیمی ادارے نہیں تھے اب وہاں بھی تعلیمی ادارے فعال ہوچکے ہیں ۔ جن میں سینکڑوں طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک کے تمام مراحل کامیابی سے طے کئے جاتے ہیں ۔

صوبہ غزنی میں جاری جنگ کے دوران مجاہدین کی طرف سے تعلیمی اداروں کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا لیکن دشمن کی طرف سے ان تعلیمی اداروں کو بہت سے مشکلات کا سامنا ہے صو بہ غزنی میں ایسے سینکڑوں مدارس جو پہلے فعال تھے اب دشمن کے ہاتھوں منہدم یا بند پڑے ہیں جب کہ بعض کو فوجی چھاؤنی کے طورپر استعمال کررہے ہیں مزیدبرآں غزنی میں موجود سترسال سے فعال مدارس میں بھی دشمن کے چھاپوں اورتشددسے بھرپورکارروائیوں کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیاں ماندپڑگئیں ہیں۔

آخر میں محترم مولوی صاحب ہم اپنے ان سوالوں کے جوابات دینے کیلئے اپنا قیمتی وقت نکالنے پر آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اللہ تعالی آپ اورآپ کے تمام مجاہدین ساتھیوں کواپنے مقصدمیں کامیاب سے سرفراز فرمائے

مولوی صا حب :

آپ کابھی بہت بہت شکر یہ اللہ تعالی آپ کوکامیا بی نصیب فرمائے۔