ماہنامہ شریعت کی امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے خصوصی گفتگو

  امارت اسلامیہ کے کسی کارکن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کسی سے زور زبردستی کوئی نقدی ، رقم وغیرہ چھین لے ۔ شیعہ سنی کےدرمیان جھگڑا پیداکرکے اسے ہوا دینا اسلام کے مفاد میں نہیں ۔ محترم ذبیح اللہ مجاہد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ . اللہ تعالی آپ کی اور تمام […]

 

امارت اسلامیہ کے کسی کارکن کے لیے یہ ممکن نہیں کہ کسی سے زور زبردستی کوئی نقدی ، رقم وغیرہ چھین لے ۔

شیعہ سنی کےدرمیان جھگڑا پیداکرکے اسے ہوا دینا اسلام کے مفاد میں نہیں ۔

محترم ذبیح اللہ مجاہد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ .

اللہ تعالی آپ کی اور تمام مجاہدین کی حفاظت فرمائے ۔ ذیل میں ماہنامہ شریعت کی جانب سے کچھ سوالات ہیں آپ اگران کے جوابات مرحمت فرمائیں توشکرگزارہوں گے۔

1: سب سے پہلے ملک میں جاری جہادی صورتحال پر تھوڑی سی روشنی ڈالیں ۔

جواب : وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !خداتعالی آپ کو تندرست اور اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آپ نے موجودہ جہادی صورتحال کے متعلق پوچھا ہے ،اس کے جواب میں اتنا کہوں گا کہ الحمد للہ ملک میں جہادی حالات گذشتہ تمام ادوار کے بہ نسبت انتہائی سازگار ہیں اور مجاہدین نہایت قوت کے ساتھ فتح سے بہر مند ہورہے ہیں ۔ روان سال کے الفاروق آپریشن میں دشمن کو انتہائی سخت نقصان پہنچا ہے ۔ ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ان پر حملے ہورہے ہیں ، بھاری مالی اور جانی نقصانات اٹھانے پڑ رہے ہیں ، ان کے اہم اور محفوظ فوجی مراکز اور کیمپوں پر انتہائی کامیاب، موثر اور بڑی کاررائیاں ہوئی ہیں ۔ جس سے ایک طرف انہیں بھاری نقصانات اٹھانے پڑے ہیں تو دوسری طرف ان حملوں نے  ان کی ساری عسکری قوت کو بے بس ذلیل کرکے چھوڑا ہے ۔ ان کا سارا عسکری قوت کا غرور خاک میں ملاکر چھوڑاہے ۔ ایسی تباہ کارروائیوں کے باعث ہی دشمن اس بات پر مجبور ہوا ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں جہاں حملے نہیں ہوئے وہاں بھی سینکڑوں کی تعداد میں اپنے انتہائی اہم مراکز اور اڈے خالی کردے اور فرار کی راہ اپنائے ۔ اب ملکی اور غیر ملکی دونوں دشمن پورے ملک میں اپنا حوصلہ ہار چکے ہیں ، انہیں باہر نکلنے کا راستہ سجائی نہیں دیتا ، مسلسل مایوسیوں اور ناکامیوں کے باعث آئے روز ان کے سربراہان تبدیل اور مستعفی ہورہے ہیں۔ پوری طرح بے چینی اور اضطراب کا شکارہیں۔

دوسری طرف مجاہدین الحمد للہ پوری طرح سے قوی حالت میں ہیں ۔ ان کے حوصلے بہت بلند ہیں ، نظم وضبط اور ڈسپلن کے حوالے سے بھی پوری طرح منظم ہیں ۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تمام اہل وطن کو انتہائی قریبی وقت میں فتح مبین کی بشارت دے رہاہوں۔ ان شاء اللہ اب ہم آزاد ہوں گے اور اسلامی نظام کےسائے تلے سکھ کا سانس لیں گے ۔ ان شاء اللہ اب وہ وقت بہت قریب ہے جب ہمارے شہداء کے ارمانوں کی تکمیل ہوگی ۔

2: امارت اسلامیہ کے مجاہدین کا نظم وضبط کیسا ہے ؟

جواب : آپ جانتے ہیں کہ امارت اسلامیہ نے مجاہدین کے لیے چند انتہائی اہم اور مضبوط اصول و ضوابط رکھے ہیں ۔اسی لیے تو مجاہدین کی صفیں روز بروز مضبوط ہوتی جارہی ہیں اور ان کی روزمرہ کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ان اصولوں میں سب سے پہلے شریعت اور شرعی اصولوں کی مکمل پابندی ضروری ہے ۔ امیر کی کماحقہ اطاعت ، اپنی جہادی قیادت پربھرپور اعتماد اور مجاہدین کے درمیان بھائی چارے کی فضاء برقرار رکھنا ، ہر معاملے میں دوسرے مجاہد کو خود پر ترجیح دینا ،ہر مسئلے میں ایثارواخلاص کے ساتھ مجاہدین امارت کی جانب سے دیے جانے والے لائحہ عمل پر عمل درآمد ، اجتماعی طور پراللہ کی رضا کے لیے ہر کام سرانجام دینا ۔ یہ سب وہ اصول وضوابط ہیں جن کی وجہ سے پورے ملک میں پھیلے ہوئے مجاہدین ایک خاندان اور ایک گھر کی طرح رہ رہے ہیں ۔ ہماری کوشش جاری ہے کہ ان اصولوں اور قواعد پر عمل درآمد کے حوالے سے اور بھی سختی اورپابندی کی جائے ۔ ہر معاملے میں شریعت کے فیصلے کو ترجیح دی جائے۔ البتہ ان معاملات میں ملک کے دینی علماء ، مشائخ اور تجربہ کار بزرگوں اور بڑوں کی جانب سے دیے گئے مشوروں اور نصائح پر عمل در آمد کی بھی انتہائی کوشش کی جاتی ہے ۔

3: سناہے مجاہدین کے نام پر کچھ لوگ عوام سے زبردستی نقدی ، رقم وغیرہ لیتے ہیں کیایہ بھی امارت اسلامیہ کے مجاہدین ہیں ، ان کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہے ؟

جواب: نہیں بالکل نہیں ، وہ لوگ جو مجاہدین کا نام استعمال کرکے لوگوں سے رقم لیتے ہیں اور جہاد کو اپنے دنیاوی مقاصد کے لیے وسیلہ وذریعہ بناتے ہیں ، ایسے لوگوں کے لیے امارت کے صفوں میں  کسی قسم کی کوئی جگہ نہیں ۔ ایسے مجرم علانیہ طورپر مجاہدین کی صفوں سے نکالے جاتے ہیں اور ان کو ان کے کیے کی بھر پور سزا ملتی ہے ۔ امارت اسلامیہ کے لائحہ کے شق 71 اور شق نمبر 73 میں اس حوالے سے لکھا ہوا اصول موجود ہے ۔ شق 17 میں ہے :” امارت اسلامیہ کے مجاہدین  کسی سے زور زبردستی عشر ، زکوۃ  یا چندہ نہ لیں  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ شق نمبر 83 میں ہے :” نقد رقم اور پیسوں کے لیے کسی کو اغواء کرنا چاہے کسی بھی عنوان سےہو ممنوع ہے ۔متعلقہ علاقے کے سربراہ کی ذمہ داری ہے کہ سختی سے اس کا تدارک کرے ۔ امارت اسلامیہ کے نام پر اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو صوبے کے ذمہ دار ایسے مجرمین کو قیادت کی ہدایت کے مطابق غیر مسلح کرکے سخت سزا دیں “۔ صفحہ 61-62

مندرجہ بالا ہدایات کی روشنی میں امارت اسلامیہ کے مجاہدین کسی بھی عنوان سے لوگوں سے زبردستی رقم نہیں لے سکتے اور نہ ہی ایسے لوگوں کو امارت اسلامیہ کی صفوں میں چھوڑا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ ہمارے عام کارکن مجاہدین کو بھی اس بات کا علم ہے کہ اگر اللہ نہ کرے کوئی سربراہ ان کو حکم بھی دے کہ فلاں آدمی کو اغواء کرو اور ان سے رقم لے لو تو عام مجاہد امیر کے اس بات کو خلاف شریعت اور خلاف اصول سمجھے گا۔ خود اس پر عمل نہیں کرے گا اور امارت کے بڑوں کو اطلاع کردے گا ۔ ایسا آدمی فورا غیر مسلح کردیا جائے گا اور کوئی شخص اس کی حمایت نہیں کرے گا ۔ میں عام مجاہدین سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں کہ اگر کسی علاقائی رہنما کے بارے میں ایسی کوئی شکایت مل جائے تو اونچی سطح پر قائدین کو مطلع کریں ۔ اس سلسلے میں امارت اسلامیہ کا اصول اتنا سخت ہے کہ کرزئی انتظامیہ کے افراد سے بھی تاوان لینا ممنوع ہے ۔ وہ بھی اگر گرفتار ہوجائیں اور انہیں معافی نہ ملے تو دیگر شرعی سزائیں تو دی جاتی ہیں مگر تاوان لینے کی کسی کو اجازت نہیں ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں ایسے کاموں کے مرتکب لوگ امارت اسلامیہ کے لوگ نہیں ہیں ۔ اور اگر مسلح چور اور ڈاکو ایسا کچھ کرتے ہیں یا کوئی اور مجاہدین کے نام پر ایسے ناجائز امورکا مرتکب ہوتاہے تو ایسے لوگوں کو بھی شرعی سزا دی جاتی ہے ۔

4: اگر ایسا کرنے والے لوگ امارت اسلامیہ کے مجاہدین نہیں ہیں تو آپ اس کی روک تھام کیوں نہیں کرتے ؟

جواب : امارت اسلامیہ کی عدالتوں اور کمیشنز کو یہ ذمہ دی گئی ہے کہ ایسے قضیے تلاش کریں اور سختی سے اس کا تدارک کریں ۔ اب بھی مجھے ایسے کئی لوگوں کے بارے میں علم ہے جن پر اس طرح کے الزامات آئے اور انہیں اس کی سزا دی گئی ۔ البتہ اس معاملے میں ا ب بھی بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔الحمد للہ امارت اسلامیہ کے سارے مسئولین اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور انشاء اللہ یقینی طور پر ایسے لوگوں کو گرفتار کرکے اپنے اعمال کی سزا دی جائے گی ۔

5: بعض اوقات ایسے بم دھماکے ہوتے ہیں جس میں عام لوگوں کو جانی ومالی نقصان پہنچتا ہے تو آپ کے خیال میں یہ کس کی کارروائی ہوسکتی ہے ؟

جواب : اس سوال کا جواب ہم کئی مرتبہ دے چکے ہیں لیکن یہ اہم مسئلہ ہے اس لیے امارت اسلامیہ کاموقف ایک بارپھر آپ کو پیش کروں ۔ بعض اوقات جو اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں جن کا اصل ہدف یاتو معلوم ہی نہیں ہوتا یا صرف عام لوگوں کو ہی اس میں نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس طرح کی کارروائی کرنے کی کسی کو اجازت نہیں اور نہ ہی کوئی سچا اور حقیقی مجاہد ایسا کرسکتا ہے ۔ عالیقدر امیر المومنین نے اپنے عید کے پیغامات اور دیگر خصوصی ہدایات میں ملکی عوام کے جان ومال کی حفاظت کو ہر مجاہد کا فرض قراردیا ہے ۔اور ہر مجاہد کو اس بات کا مکلف بنایا ہے کہ اپنی جہادی کارروائیوں کو اس طرح سے ترتیب دیا کریں کہ اس میں ملکی عوام اور دیگر ایسے لوگوں کوجو جنگ میں شریک نہیں ہیں نقصان نہ پہنچے ۔ بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکوں کے حوالے سے خصوصی طورپر احتیاط سے کام لیا جائے ۔

ملکی لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت مجاہدین کے لیے اب ایک اہم ہدف ہے ۔ ہم شرعی طورپر اس کے مکلف ہیں کہ عام لوگوں کی موجودگی کی صورت میں ان کے جانوں کی حفاظت پر پوری توجہ دیں ۔ اور محض بے احتیاطی اور لاپرواہی میں ان کو اس عظیم نعمت {زندگی } سے محروم نہ کریں ۔ زندگی کی نعمت سے محرومی  ایسا نقصان ہے جس کا کوئی نعم البدل یا جبیرہ بھی نہیں ۔ یہ نعمت ایک ہی بار ملتی ہے اور ایک بار ضائع کرنے سے ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجاتی ہے ۔ اگر کوئی شخص قصدا ایسی کارروائی کرتا ہے جس سے عام لوگوں کو نقصان پہنچے تو اس کا سخت محاسبہ کیاجاتا ہے ۔ہم پھر بھی ان تمام بھائیوں کو جو خود کو اسلام اور اسلامی امارت کے ہدایات کا پابند سمجھتے ہیں مطلع کرتے ہیں کہ عام لوگوں کا بہت زیادہ خیال کریں ۔ بارودی سرنگ اور دیگر بارودی مواد دشمن کے لیے ایسی جگہوں پر نصب کریں جہاں دشمن کو تو بھر پور نقصان ہو مگر عام لوگ اس کے نقصان سے بچے رہیں ۔ خاص طورپر ضعیف العمر افراد ، خواتین اور بچے قربان ہونے سے بچ جائیں ۔ جہاد واقعتا بھرپور احتیاط کا تقاضا کرتا ہے ۔ ایسے موقع پر مجاہدین دشمن کے کم نقصان پر بھی قناعت کریں ، اور جہاں دشمن کے نقصان کے ساتھ عوام کے نقصان کا بھی خوف ہومجاہدین وہاں حملہ نہ کریں ۔تو امیدہے اللہ تعالی کی غیور ذات اس کے بدلے کہیں اور دشمن کے خلاف کارروائی کا موقع دے گی اور اس سے زیادہ نقصان دشمن کو ہوگا انشاء اللہ ۔ البتہ بہت مرتبہ دشمن بھی عام لوگوں کو قصدا نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر ذرائع ابلاغ پر اس کا ذمہ دار مجاہدین کو ٹھہراتے ہیں تا کہ مجاہدین کو بدنام کریں۔ ہمارے پاس ایسے کئی واقعات کے واضح ثبوت ہیں ۔

6: آپ لوگوں نے اس کی روک تھام کے لیے کیا کیا ہے ؟

جواب : میں پہلے ذکرکرچکا ہوں کہ اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ امارت اسلامیہ سے متعلق کسی مجاہد نے ایسا کیا ہے اور عام ملکی لوگوں کے بیچ میں اس نے دھماکہ کیا ہے تو یقینی طورپروہ شرعی عدالت کے سامنے لائے جائیں گے ۔ امارت اسلامی کسی شخص کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ عام لوگوں کی زندگیوں سے کھیلے ۔ ہماری پوری جنگ عام لوگوں کی زندگیوں کی حفاظت اور ان کی سعادت کے لیے جاری ہے ۔ شخصی اور انفرادی عبادات تو ہر شخص کرتا ہے ، ہمیں بھی کسی نےانفرادی عبادت سے نہیں روکا لیکن یہ جو جاری جنگ ہے یہ اجتماعی عبادت یعنی اسلام کی حاکمیت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے ہے ۔ یہ عبادت ہم پر لوگوں کی سعادت کے لیے لازم ہوئی ہے اور کفر کے شر سے لوگوں کی حفاظت کے لیے ہم اس جنگ کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اس لیے ہمارا سب کچھ لوگوں کی خوشحالی کے لیے ہے نہ کہ ان کی بربادی کے لیے ۔

7: شیعہ سنی اختلافات کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں اور اس بارے میں امارت اسلامیہ کی پالیسی کیا ہے ؟

جواب: شیعہ سنی کے درمیان لڑائی اور اختلافات پیدا کرنا اور ان کو گرمانا مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ، امت مسلمہ کو اس وقت کفر کے یلغار کا سامنا ہے ۔ اگر اس زمانے میں بھی کوئی اسلامی ملک کے اندر جھگڑے،فسادپیداکرتا ہے اور گھر گھر دشمنی کی فضا بناتاہے تو واضح طورپر کہدوں کہ یہ عمل مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ۔ ایسے واقعات سےصرف کفار ہی کو فائدہ ہوگا ۔ آپ جانتے ہیں کہ قریبی تمام اسلامی ممالک میں اہل سنت اور اہل تشیع مشترکہ زندگی گذارتے ہیں ۔ اگر ان کے درمیان جنگ شروع ہوجائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تمام اسلامی دنیا کے ممالک میں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی ۔ اور ایسی جنگ جس کا کوئی انجام بھی نہ ہوگا ۔ انجام اس لیے نہ ہوگا کہ کثرت کے باعث کسی فریق کے لیے دوسرے فریق کاختم کردینا اور مٹاکے رکھ دینا ناممکن ہوگا ۔ اس لیے یہ ایک بے پایاں جنگ ہوگی جس کے عواقب انتہائی خطرناک ہوں گے ۔  آج امت مسلمہ میں مکمل طورپر اتحاد کی ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے سنیوں اور اہل تشیع کو خاص غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ اب امارت اسلامیہ کی واضح پالیسی کی بنیاد پر کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی شخص کو صرف اس لیے کہ وہ شیعہ ہے اس پرحملہ آور ہو  اور اسے قتل کرے ۔ امارت اسلامیہ امت مسلمہ کی اتحاد کے لیے سرگرم عمل ہے ۔ ساری امت مسلمہ کو اس آگ کی فکر کرنی چاہیے جو کافروں نے جلائی ہے جس میں بلاتفریق سارے مسلمان خاکستر ہورہے ہیں ۔

8: تو اس سلسلے میں مجاہدین کے لیے کیا ہدایات ہیں ؟

جواب : گذشتہ سوال کے جواب میں میں نے مجاہدین کے لئے ہدایات عرض کردی وہ یہ کہ اسلامی دنیا کو اب مغرب اور کفر کی جانب سے حملے کا سامنا ہے ،انہیں چاہیے کہ اپنی ساری قوت جارح قوتوں کے خلاف استعمال میں لائیں ۔ تمام اسلامی ممالک کو اپنے اندرونی اختلافات بھلا کر اسلامی وحدت کی راہ اپنائیں اور کفار کے تسلط اور تجاوز کا راستہ روکیں ۔ داخلی مسائل میں خود کو مصروف کرکے عالمی مسائل سے غافل نہ ہوں ۔ آج کی سب سے بڑی مشکل جو امت مسلمہ کو درپیش ہے وہ امریکی تسلط ہے ۔مسلمانوں کو اس کے مقابلے میں پوری طرح اخلاص کے ساتھ کام کرنا چاہیے ۔ اور تمام ایسی رکاوٹیں جو جہاد کی کمزوری کا باعث بنتی ہیں ان کا راستہ روکا جائے ۔ اس سلسلے میں شیعہ سنی اختلاف بھی ایک عالمی اور خطرناک مسئلہ ہے ۔ کسی حوالے سے بھی اس کو بڑھانے کی ضرورت نہیں اور اس سے متعلق تمام فتنوں کے روک تھام کی ضرورت ہے ۔

9: عوام سے آپ مجاہدین کے تعلقات کیسے ہیں اور یہ کہ اس تعلق کو آپ کہاں تک ضروری سمجھتے ہیں ؟

جواب : عوام کی تکمیل ہم سے ہوتی ہے اور ہم عوام ہی کا ایک الگ نہ ہونے والا حصہ ہیں ۔ میں پہلے ذکر کرچکا ہوں کہ ہماری ساری قربانیاں اور زحمتیں اسی عوام کی سعادت اور آزادی کے لیے ہیں ۔ ہم کو انہی عوام کی خاطر جہاد کا حکم ملا ہے ۔ اسلام کی حاکمیت انہیں عوام کی حمایت کی بدولت اورانہیں عوام کے لیے مانگتے ہیں ۔ اسلامی عدالت بھی عوام کی خوشحالی کے لیے مانگتے ہیں ۔ یلغار اور تسلط کے ساتھ پنجہ آزمائی بھی مسلمان رہنے اور مسلمانوں کے بسنے کے لیے ہے ۔ تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم عوام ہیں اور عوام ہم ۔ امیر المومنین نے اپنے ہر پیغام میں عوام کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا انتہائی صراحت کے ساتھ حکم دیا ہے ۔  کہ عوام کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ،ظلم وزیادتی سے بچیں ، ان  کے حقوق ضائع نہ ہونے دیں ۔ کوئی اور ان پر ظلم اور زیادتی نہ کرے ۔مجاہدین کو اپنے عوام کے احسانات نہیں بھولنے چاہیئں ۔ جنہوں نے گیارہ سال سے نہ صرف اس جہادی تحریک کو زندہ وتابندہ رکھا ہے بلکہ اور بھی مضبوط کررہے ہیں  ۔ اپنے بیٹوں کی قربانی دی ہے ۔ گھر اورگاؤں مجاہدین کے لیے بمباری میں تباہ کروائے ان کے عزیز رشتہ امریکی ظلم وستم کا نشانہ بنے ۔ اس عوام کی ناشکری کرنا سب سے بڑی جفا کاری ہے ۔الحمد للہ مجاہدین اور عوام کے درمیان نہ ٹوٹنے والے مضبوط تعلقات ہیں ۔اور اس کی ضرورت بھی انتہائی زیادہ ہے ۔ انہی عوام کی مدد سے مجاہدین زندہ ہیں اور ان کی حمایت ہی کی بدولت کفار کو شکست کا سامنا ہے ، عوام اور مجاہدین دونوں کو ایک دوسرے کی حمایت سے واقف ہونا چاہیے اور دونوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے کے حقوق کاخیال رکھیں ۔

===========================================