کابل انتظامیہ کے نائبین کی غیرذمہ دارانہ گفتگو پر ترجمان کا بیان

کابل انتظامیہ کے نائبین کی غیرذمہ دارانہ گفتگو پر امارت اسلامیہ کے ترجمان کا بیان گذشتہ تین روز کے دوران کابل انتظامیہ کے دو نائبین امن عمل کے خلاف کسی خاص منصوبے کے تحت میڈیا  پر نمایاں   ہورہے ہیں اور امارت اسلامیہ کےمتعلق عجیب و غریب پروپیگنڈہ اور آئندہ اسلامی نظام کے خلاف اپنے بغض […]

کابل انتظامیہ کے نائبین کی غیرذمہ دارانہ گفتگو پر امارت اسلامیہ کے ترجمان کا بیان

گذشتہ تین روز کے دوران کابل انتظامیہ کے دو نائبین امن عمل کے خلاف کسی خاص منصوبے کے تحت میڈیا  پر نمایاں   ہورہے ہیں اور امارت اسلامیہ کےمتعلق عجیب و غریب پروپیگنڈہ اور آئندہ اسلامی نظام کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کررہا ہے۔

ان کے پروپیگنڈے کے بارے میں ہمارا مؤقف یہ ہے :

  • اسلامی نظام کا اپنا علیحدہ تعریف اور سسٹم ہے، لیکن بدقسمتی سے کابل انتظامیہ کے نائبین اور کارکنان اس لیے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں، کہ وہ اسلامی تعلیمات اور تاریخ سے ناواقف اور لاعلم ہیں۔
  • امارت اسلامیہ کے مکمل حاکمیت کے زمانے میں اسلامی احکام کا نفاذ شرعی مکلفیت کی بنیاد پر تھا، اسلام میں فقہی احکام کو قوانین کہا جاتا ہے، جس کا نفاذ فطری طور پر معاشرے پر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں قوانین کی خلاف ورزی کو جرم سمجھا جاتا ہے اور مجرموں کو سزا دی جاتی ہے۔  اس سلسلے میں بےبنیاد الزامات لگانا، یا مذکورہ قوانین کو  نفاذ اسلام کے خلاف فعل قرار دینا، بذات خود متکلم کی لاعلمی اور اسلام سے عدم واقفیت پر دلالت کر رہا ہے۔
  • اگر امارت اسلامیہ کی آمد سے ایک قدم قبل زمانے پر نظر رکھے، کیا کابل میں کشمکش اقتدار اور خانہ جنگی سے شہر کو کھنڈرات میں بدلنا،جس کا نتیجہ کابل کے ساٹھ ہزاروں شہریوں کا قتل عام ہوا، کون سا کمال تھا؟
  • کیا عوام کے سروں میں کیل ٹھوکنا، رقص مردرہ کا تماشہ کرنا، چیک پوائنٹوں پر عوام کے مال، عزت اور وقار پر تجاوز کرنا فخر ہے؟
  • اپنی عزت کے تحفظ کی خاطر میکرویان کی چوتھی منزل سے باعزت کنواریوں کا چھلانگ لگانا اور روزانہ ہزاروں جرائم کابل اور صوبوں میں شروفساد کے غنڈوں کی جانب سے انجام ہونا، کون سی بہادری تھی ؟
  • امریکی ڈالرسے بھر بریف کیسوں کے بدلے غلامی قبول کرنا اور اپنے ملک کے قبضے میں استعمار کیساتھ 20 برس تک شانہ بشانہ کھڑے رہنا اور اس کے مخبری و جاسوسی کرنا، کوبسی کامیابی ہے ؟
  • جارجیت کے پرچم تلے مسلط شدہ نام نہاد جمہوریت سے ہمارے ملک میں غلامی، رشوت، غصب، تعصب، نااہل بدعنوان افراد کا حکمران ہونا، جنگی مجرموں کو تقویت دینا، ایوان صدر تک تمام معاشرے کو فحاشی، کرپشن اور ناانصافی کے گردآب میں دھکیلنا، منشیات کی کاشت اور تجارت کے لیے سہولیات فراہم کرنا اور لاکھوں نوجوان نشے کے عادی ہونا، بڑے شہروں میں شکار، چوری، عوام کو ان کی گاڑی، مال، موبائل فون اور موٹرسائیکل کی وجہ سے اغوا یا قتل کرنا، کروڑوں ڈالر کی عالمی امداد کے باوجود معاشرے کو غربت کی جانب دھکینا اور ہزاروں دیگر مفاسد کے علاوہ ہماری قوم کے لیے کونسی چیز تحفہ میں لائی، جس پر کابل انتظامیہ کے نائبین فخر کررہا ہے ؟

یہی منحوس چہرے ابتداء ہی سے امن اورہمارے ملک میں اسلامی نظام کے استحکام کے دشمن رہے ہیں، اسی لیے 20 برس غلامی  میں بسر کی،  لہذا افغان غیور اور بہادر قوم کو بیدار رہنا چاہیے، اسلامی نظام میں تمام افغان ایک دوسرے کے بھائی ہونگے، نظام عوام کا حقیقی خادم ہوگا، ہر شخص کو خدا  کے عطا کردہ شرعی حق مل جائے گا اور کسی کیساتھ بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

ہماری خودمختاری، استقلال، عزت اور فخر محفوظ رہے گا، کسی بیرونی فریق سے وابستہ نہیں  رہے گا، ہم  ایک آزاد اور خودکفیل ملک کے باشندے  ہونگے۔ ان شاءاللہ

افغانانوں کے اس جائز حق سے  کوئی بھی شخص دشمن رکھے گا،وہ بےنقاب، خوار و ذلیل ہونے کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں کرسکے گا۔ ان شاءاللہ تعالی و ما ذلک علی اللہ بعزیز

ذبیح اللہ مجاہد ترجمان امارت اسلامیہ

5 صفرالمظفر 1440 ھ بمطابق 22 ستمبر 2020 ء