ذبیح اللہ مجاہدصاحب کا اہم انٹرویو

ترتیب وترجمہ:ابو محمد الفاتح اس وقت جبکہ افغانستان ایک اہم موڑ سے گزررہاہے-افغانستان کے غیور اور وفادار فرزندان نے امریکا جیسی پاور فل طاقت کو مذاکرات کی دہلیز پر بٹھایا اور بالاخر ان کے افغانستان سے نکلنے کامعاہدہ دستخط کروایا جس کے نتیجہ میں بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہوگئی-اور اب مملکت قطر […]

ترتیب وترجمہ:ابو محمد الفاتح

اس وقت جبکہ افغانستان ایک اہم موڑ سے گزررہاہے-افغانستان کے غیور اور وفادار فرزندان نے امریکا جیسی پاور فل طاقت کو مذاکرات کی دہلیز پر بٹھایا اور بالاخر ان کے افغانستان سے نکلنے کامعاہدہ دستخط کروایا جس کے نتیجہ میں بین الافغان مذاکرات کے لیے راہ ہموار ہوگئی-اور اب مملکت قطر میں امارتِ اسلامیہ اور دیگر افغان سیاسی جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اور چالیس سالہ جنگ کے اختتام کے لیے مشترکہ حل نکالنے کے لیے مصروفِ عمل ہیں-ایسے میں اہل وطن جہاں امنگوں کی براری کے لیے پر امید ہیں، وہیں بعض مفاد پرست حلقوں کی جانب سے تشویشناک ماحول پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے-اس نازک موقع پر امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے ایک انٹرویو میں بہت سارے حقائق کو واشگاف انداز میں بیان کیا ہے اور قوم کو اطمینان دلایا ہے-اہمیت کے پیش ِ نظر چند اہم نکات پیشِ خدمت ہیں:

‏ذبیح الله مجاهد: ہم اپنی جانب سے قوم کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہم اپنے بہادر عوام کی تمناووں کو پورا کرکے رہیں گے اور جو مقصد روزاول سے پیشِ نظر تھا آج بھی اسی پر قائم ہیں اور کبھی اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے-قوم کی آرزو ہماری آرزو ہے-نہ اس کے ساتھ جفا ہوگی اور نہ خاک آلود ہوگی-

‏جو لوگ امن اور صلح کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں اور اس نازک وقت میں اپنے قول وعمل سے اس مرحلہ کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں یقین ہیں کہ امن آنے کے ساتھ ان کااقتدار خطرے میں پڑجائے گا -ہماری قوم ان چہروں سے اچھی طرح واقف ہیں اور ان کے ہفوات کو قابلِ اعتناء نہیں سمجھتی-

‏کسی کو اچھا لگے یا برا،افغان قوم نے عظیم قربانیاں دی ہیں -جن کے نتیجہ میں اسلامی نظام ضرور آئےگا-اجنبی کلچر اور بیرون سے برآمد شدہ نظام کبھی قبول تھے اور نہ ہی آئندہ کسی صورت قبول کرلیں گے-

استعماری ٹولہ کو ہم نے روزِ اول سے کہاتھا کہ یہ مسئلہ جنگ سے کبھی حل ہوگا اور نہ ہی جنگ کسی مسئلہ کا حل ہے-مگر وہ نہ مانے اور ہم پر زور زبردستی جنگ مسلط کی-جو بالآخر انہیں مہنگی پڑگئی اور قوم کے باعزت،باوفا، جرات مند اور بے باک فرزندانِ ملت نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور شکست تسلیم کااعتراف کرڈالا-

بیرونی ایجنڈوں کے وفادار اور امریکااور یورپ کے غلام جو اپنی ہی قوم کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے اور اپنے ہی ملک کو اجنبی مفادات کے لیے تہ تیغ کررہے تھے اس لائق تھے کہ انہیں سرِعام پھانسی پہ لٹکایاجائے اور عبرت کانشانہ بنایہ جائے-مگر ہم نے ان کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی جو ہماری انسانیت،امن دوستی اور ملک سے وفاداری پر دلالت کرتی ہے اور یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں اور اپنامقابلہ ذاتی انتقام، کرسی اور اقتدار کے لیے نہیں کرتے-اس کے باوجود اگر مسئلہ کو باتوں اور ڈائیلاگ سے حل نہیں کیاجاتا تو جنگ کاآپشن ہمارے پاس ہر حال.میں موجود ہے-ملت کو اطمینان کرلینا چاہیے کہ ہم ہر حال میں ان کی امنگوں کو پورا کرکے رہیں گے۔

اسلامی نظام اور افغانستان کے دیگر مسائل کاحل افغانوں کااپنا ذاتی اور اندرونی مسئلہ ہے اور افغان خود ہی ان کاحل نکالیں گے-ہم اس بارے کسی بیرونی جہت کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ دخل اندازی کریں اور کسی دباو قبول نہیں کرتے-اسی طرح ہم اپنے ان مسائل امریکی انتخابات سے منسلک نہیں کرتے-

بین الافغان مذاکرات میں بھی ہمارا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ مذاکرات میں افغانوں کے علاوہ اور کسی تیسرے فریق کو اجازت نہیں ہوگی جس کو مقابل جانب نے بھی تسلیم کرلیا-

صحافی کے اس سوال پر کہ بیت المال اور قومی خزانے سے لوٹ مار کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟مجاہد صاحب کا کہنا ہے کہ یہ سب باتیں نظام کی ساخت اور تشکیل کے بعد کی ہیں البتہ جو جو چوری میں ملوث ہیں انہیں عاقبت دیکھنے سے پہلے چوری شدہ مال واپس کرلینا چاہیے-اور کیوں اب تک اپنے تحویل میں رکھاتھا قوم کو جواب دینا چاہیے-

بین الافغان مذاکرات میں جانبِ مقابل کی ٹیم کا مکمل تعارف تو اب تک نہیں ہے البتہ یہ حسنِ ظن کی بنیاد پر کہہ سکتے ہیں کہ ان میں بھی کچھ لوگ حقائق کاادراک اور دردِ دل رکھنے والے ہونگے-ہم سے بہت سے لوگ پوچتے ہیں کہ آپ کی سرخ لکیر کیا ہے؟انہیں میں بتانا چاہتاہوں کہ ہم سرخ لکیریں اس وقت کھینچنا نہیں چاہتے -ہمارا اصل مقصد اپنے ملک وملت کو اس ناسور سے نکالنا اور مسائل کا حل نکالنا ہے-

کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جنگ میں بین الافغان مذاکرات کے ساتھ شدت آئی ہے-تو میں یہ بات واضح کردوں کہ بدبختانہ کابل انتظامیہ اس فرصت سے بھی بدترین استفادہ کررہی ہے اور چاہتی ہے کہ اپنا اقتدار اور قبضہ پھیلائے -اس مقصد کے لیے مختلف صوبوں میں بے جا آپریشنز شروع کیے ہیں-نئی نئی تعمیرات میں مصروف ہیں-مورچے بنائے جارہے ہیں-جس کے دفاع کا ہم حق رکھتے ہیں اس لیے جنگ کی شدت کی ذمہ داری ہم پر نہیں آتی-

صحافی نے کہا کہ کتناوقت لگے گا اور کب تک یہ مذاکرات کامیابی سے انتہاء کو پہنچیں گے؟

جواب میں مجاہد صاحب نے کہا کہ لوگوں کو جلدی نہیں کرنی چاہیے -یہاں چالیس سال جنگ ہوئی ہے -کشت وخون ہواہے اس کو صاف کرنے میں وقت لگے گا-پھر جب کہ اصلاح کاروں کی بنسبت تخریب کار زیادہ ہو: اس لیے وقت لگ سکتاہے لیکن یہ کوئی باعث تشویش بات نہیں ہے-

قطر میں اجتماعات ایک اچھی پیش رفت ہے-اس وقت طرز العمل کے بارے میں بحث جاری ہیں-امید ہے جلد ہی دونوں فریق اتفاق راے تک پہنچیں گے -البتہ مذاکراتی ٹیموں کو یہ ادراک کرلینا چاہیے کہ امن عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے کسی کو بھی اجازت نہ دیں- ہم اہنی طرف سے اس نکتہ کے لیے ہوشیار ہیں-

مجاہد صاحب سے جب پوچا گیا کہ کابل میں جو حکومت ہے اس میں بحیثیت حکومت آپ کااشتراک امکان رکھتاہے؟مجاہد صاحب نے جواب دیا کہ ہم کابل میں کسی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے اور نہ کسی نظام کو جانتے ہیں-جو لوگ برسرِ اقتدار ہیں وہ سب امریکی جہازوں اور توپ وٹینک کے زور پر افغانستان پر مسلط کیے گئے ہیں-

آخر میں مجاہد صاحب نے اس نظریہ کی بھر پور تردید کی کہ گویا طالبان انحصار کی پالیسی رکھتے ہیں اور صرف اپنی مرضی چلاتے ہیں-مجاہد صاحب نے کہا کہ آئندہ نظام سب کی اتفاقِ رائے سے مرتب ہوگا-امارت اور جمہوریت نام اہم ہیں لیکن ان کا ماحصل بہت ہی اہم ہیں-ہم مکمل اسلامی نظام کے داعی ہیں اور اسی کے لیے ہماری جدوجہد ہیں اور رہے گی-