بین الافغان مذاکرات بارے ملا خیراللہ خیرخواہ کی تازہ ترین گفتگو

دوحہ میں جاری بین الافغانی مذاکرات کے حوالے سے امارت اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے رکن ملا خیر اللہ خیرخواہ کی تازہ ترین گفتگو ترتیب وترجمہ: سید افغان ۱۲ ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے ہیں جس کو اب دو ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے-مگر پیش رفت یا پسپائی کے حوالہ سے […]

دوحہ میں جاری بین الافغانی مذاکرات کے حوالے سے امارت اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے رکن ملا خیر اللہ خیرخواہ کی تازہ ترین گفتگو

ترتیب وترجمہ: سید افغان

۱۲ ستمبر کو بین الافغان مذاکرات شروع ہوئے ہیں جس کو اب دو ہفتے سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے-مگر پیش رفت یا پسپائی کے حوالہ سے کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے-اس کے ساتھ ہی کابل انتظامیہ کے بعض غیر ذمہ دار اور افغانی گروہوں کی ٹیم کے بعض ارکان نے انتہائی غیر سنجیدگی کامظاہرہ کرتے ہوئے اس نازک موڑ پر منفی پروپیگنڈا شروع کردیا اور یہ تاثر دینے لگے گویا طالبان ہی مذاکرات کو آگے بڑھنے سے رکاوٹ بن رہے ہیں-اس تناظر میں سیاسی دفتر اور امارتِ اسلامیہ کی مذاکراتی ٹیم کے رکن جناب ملا خیراللہ خیرخواہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بہت اہم باتیں کی ہیں-اہمیت کے پیشِ نظر چند نکات پیشِ خدمت ہیں:
خیرخواہ صاحب: امریکا کے ساتھ تاریخی معاہدہ،پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی اور بین الافغان مذاکرات میں انٹری بذاتِ خود ایک اہم پیش رفت ہے-پھر بین الافغان مذاکرات بھی محض معطل نہیں ہے بلکہ یہاں بھی ماحول کافی سازگار ہے -طرزالعمل کے لیے جو مادے متعین ہوئے تھے ان میں بھی اکثر پر اتفاق ہوچکاہے ایک یا دو باقی ہیں-البتہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمارا جانبِ مقابل کے ساتھ معاہدہ ہواتھا کہ جب تک کوئی چیز متفقہ طور پر منظور نہ ہو اس کو پبلک نہیں کرین گے جو بدقسمتی سے جانبِ مقابل نے میڈیا کو وہ باتیں بتائی اور معاہدہ کا پاس نہیں رکھا-دوسراالمیہ یہ کہ غلط انداز میں وہ باتیں پیش کی گئیں؛اس لیے میں ان مادوں کی وضاحت کیے دیتاہوں:
پہلا اختلافی نکتہ یہ ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کو رواں مذاکرات کے لیے بنیاد بناتے ہیں -جس پر ہماری دلیل یہ ہے کہ بیس سال سے تمھارے ساتھ کوئی اجتماع نہیں ہوا ہے اور اب جو ہورہا ہے یہ اس معاہدہ کی بنیاد پر ہورہاہے جو امریکا کے ساتھ دستخط ہواہے-اس لیے بنیاد بہر حال یہی ہوگی-اس پر جانبِ مقابل کا کہنا ہے کہ لویہ جرگہ نے جو اعلامیہ جاری کیاہے وہ بھی بنیاد میں شامل ہوگا -لیکن یہ بالکل غیرمعقول بات ہے-کیونکہ جس جرگہ کو ہم نے ناجائز کہاہو،جس میں ہم نے شرکت نہ کی ہو،جس میں ہمارا کوئی نمائندہ نہ ہو،جس کے اعلامیہ کی ہمیں کوئی خبر ہو اور نہ کوئی پتہ اسے مذاکرات کی بنیاد بنانا کیوں کر معقول ہوسکتا ہے؟
دوسرا اختلافی نکتہ یہ ہے کہ ہم نے اسلامی اصول کی تشریح میں اختلاف کے وقت حنفی مذہب کو بنیاد بنانے کا کہا؛کیونکہ افغانستان میں صدیوں سے حنفی مذہب بحیثیت مملکتی مذہب رائج ہے-اسی بنیاد پر تمام مسائل حل ہوتے ہیں اس لیے اس کو مرجع بنانا چاہیے-اس پر جانب مقابل کے کچھ اہلِ تشیع حضرات نے یہ کہا کہ ہم بھی افغانستان میں وجود رکھتے ہیں، ہمارے کچھ احوالِ شخصیہ ہیں ان کا بھی تذکرہ آنا چاہیے اور شیعہ مذہب کو بحیثیت ِمذہب جگہ دینی چاہیے-یہاں یہ بات یاد رہے کہ شیعہ کے وجود سے ہم انکاری نہیں،ان کے حقوق سے انکاری نہیں،بلکہ میں تو کہتاہوں کہ ہم نے جو حقوق ان کو دئیے ہیں اور جن سے ابھی تک یہ مستفید ہوتے چلے آرہے ہیں وہ تو انہیں کابل انتظامیہ سے بھی نہیں ملے ہیں-
البتہ یہاں جو ہم صرف حنفی مذہب کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ہم آئین کی تشکیل اور ساخت کے حوالہ سے بات نہیں کررہے بلکہ ایک ملکی مسئلہ حل کررہے ہیں اور ایسے موقع پر احوال شخصیہ کو بیچ میں ڈالنا مجھے یہ وہم دلاتا ہے کہ شاید یہ لوگ مذاکرات کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں-کہاں ملک کا چالیس سالہ گھمبیر مسئلہ اور کہاں احوالِ شخصیہ کی بات؟ امارتِ اسلامیہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں غیرمسلموں کو بھی بحیثیت ایک افغان شہری اتنا ہی حق دینے کے لیے پرعزم ہے جتناایک مسلم کو ملتاہے -تو اگر کوئی مسلم ہو اس کو تو بہر حال ملے گا-
امارتِ اسلامیہ اپنی جانب سے کیے گئے وعدوں کی پابند ہے اور مسئلہ کاحل نکالنے کے لیے مکمل سنجیدہ ہے-جبکہ جانبِ مقابل انحراف سے کام لے رہی ہے-ہم نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ جو بات متفقہ نہ ہو وہ پبلک نہیں کی جائے گی-الحمدللہ ہم نے اس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی-البتہ مقابل طرف سے پہلی خلاف ورزی یہ ہوئی کہ اختلافی نکات میڈیا پر لائے گئے-پھر باہر لانے میں بھی تحریف سے کام لیا گیا جو غیرمناسب بات ہے؛کہ اس سے افراتفری اور تشویش پیداہوتی ہے اور اچھا اثر نہیں رکھتا-
صحافی کے اس سوال پر کہ جانبِ مقابل یہ الزام لگاتی ہے کہ ہم مختلف تجاویز پیش کرتے ہیں لیکن طالبان کا لہجہ درست نہیں ہوتا؟ خیرخواہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے روزِ اول سے ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ یہ مذاکرات امریکی معاہدہ کی بنیاد پر ہونگے؛کیونکہ وہ معاہدہ بین الاقوامی سطح پر مسلمہ ہونے کے ساتھ آپ نے بھی منظور کیا تھا، اور آپ نے اس کی تمام ماجرا سے آگاہ ہونے کااعتراف بھی کیا ہے-یہ متفقہ ہوگا تو آگے بڑھیں گے لیکن جانبِ مقابل اس میں روڑے اٹکارہے ہیں -ایسے میں ہم اس باب میں کس طرح تجاویز قبول کرسکتے ہیں؟
ہمیں پتہ ہے کہ کابل سے مذاکرات کے لیے آئی ہوئی ٹیم آپس میں ہم آہنگی نہیں رکھتی، بلکہ شدید اختلاف سے دوچار ہے-لیکن ملک وملت کی خاطر اور مسائل کے حل کے لیے ہم ان کے اندرونی اختلافات سے استفادہ نہیں کرنا چاہتے بلکہ بحیثیت افغان قوم اور افغان معاشرہ ہم ان کے ساتھ احترام سے پیش آتے ہیں اور ہماری نظر ان اختلافات کی بجائے ان مسائل پر ہوتی ہے جوقوم کے لیے امن کو لائے-اسی طرح اس ٹیم کے پیچھے جو عوامل کارفرماہیں ان سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ اس فرصت کو اختلاف اور مفادات کی بھینٹ نہ چڑھائے اور ملک کو پرامن بنانے میں درست کردار کرے-
کابل انتظامیہ ہم پر مسلسل الزام دھرتی ہے کہ مذاکرات شروع ہونے کے ساتھ تم نے تشدد میں اضافہ کیا ہے-میں جب کبھی ایسی بات سنتاہوں تو سمجھ آتاہے کہ ان لوگوں کو ملک عزیز ہے اور نہ.ملکی مفادات -بلکہ یہ ہرموقع کے لیے گھات لگا کر بیٹھے ہیں کہ کسی طرح استفادہ کرسکے-مذاکرات کی آڑ میں یہ لوگ مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں-نئی نئی محاز کھول رہے ہیں اور کھوئے ہوئے مقامات ہتھیانے کی کوشش کرتے ہیں-جس پر مجاہدین کوئی دفاعی اقدام کرتے ہیں تو یہ آسمان سر پہ اٹھالیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں-ہم نے تو اپنی طرف سے سنجیدگی سے کام لیتے ہوئے اس سال موسمِ بہار میں آپریشن کااعلان تک نہیں کیا ہے-لیکن ان کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنے مفادات تک پہونچ جائے -اسی لیے قیدیوں کی رہائی کو بھی دس دن سے چھ ماہ تک ٹالتے رہے-اگر واقعی وہ امن چاہتے ہیں تو ڈھکوسلوں سے اجتناب کرتے ہوئے مذاکرات میں سنجیدگی دکھائے امن خود بخود قائم ہوگا-