موجودہ جہاد کےبابت چند علماء کےحالیہ مؤقف کے متعلق امارت اسلامیہ کے ترجمان کا بیان

جب 20 برس قبل امریکا نے افغانستان پر جارحیت کی، تو ملک کے ممتاز علماءکرام کے فتوی سے افغان مظلوم و نادار قوم خالی ہاتھ مگرقوی ایمان سے اپنے جائزحق آزادی کے حصول اور اسلامی نظام کو سقوط سے بچانے کے لیے مسلح جہاد کے آغاز پر مجبور ہوئی۔ اس عظیم فریضے کو 20 سالوں […]

جب 20 برس قبل امریکا نے افغانستان پر جارحیت کی، تو ملک کے ممتاز علماءکرام کے فتوی سے افغان مظلوم و نادار قوم خالی ہاتھ مگرقوی ایمان سے اپنے جائزحق آزادی کے حصول اور اسلامی نظام کو سقوط سے بچانے کے لیے مسلح جہاد کے آغاز پر مجبور ہوئی۔

اس عظیم فریضے کو 20 سالوں کے دوران کافی مصائب، مسائل، ہجرتیں، گرفتاریوں،قربانیوں اور مشقتوں کیساتھ یہاں پہنچا دیا۔

اب جارح امریکی قوتیں افغانستان سے انخلا پر آمادہ ہوچکی ہیں، مگر انخلا کا عمل اب تک مکمل نہیں ہوا ہے، اسی طرح وہ عناصر جنہیں  گذشتہ 20 سالوں سے استعماری ایجنٹوں کے طور پر امریکی مقاصد کے تحقق کی خاطر افغان قوم پر مسلط کیے جاچکے ہیں، وہ تاحال برسراقتدار ہے۔

اس مسلط کردہ رژیم کے ڈھانچے میں افغان قوم کو عظیم معنوی ضربات کا سامنا ہوا ہے، اخلاقی بدعنوانی عروج کو پہنچی ہے، انتظامی بدعنوانی روایت بن چکی ہے، لوٹ مار، غصب، رشوت، غبن، عوام کی حق تلفی، ذاتی حریم پر تجاوز روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔

اس کے ساتھ افغان قوم پر باہر سے درآمدہ شدہ نظام کو مسلط کردیاگیا ،جس نے ملک کے مذہبی اقدار کو بہت نقصان پہنچایا ۔

افغانستان کو فرقہ واریت،نسلی اور مذہبی منافرتوں اور بڑے بڑے مسائل سے دست وگریبان کیا گیا ہے۔

جب کہ افغان مجاہد ملت نے استعمار کے خلاف اپنا عظیم جہاد  ملک میں خالص اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر شروع کیا تھا، اس راہ میں لاکھوں قربانیاں پیش کیے۔ اب ملت کا مسلم شرعی اور قانونی حق ہے کہ اپنے جائز مقاصد کو  فوجی اور سیاسی طریقوں سے حاصل کریں۔

جہاد کا حتمی مقصد اعلا کلمۃ اللہ (خالص اسلامی نظام) کا نفاذ ہے، جب تک یہ شرعی مقصد حاصل نہ ہوجائے، اس وقت تک  جواز اور فضیلت کیساتھ جاری رہیگا،  افغان قوم کی اس عظیم آرزو کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ  اور نہ ہی موانع ایجاد کرسکتا ہے۔

حال ہی میں افغانستان کی موجودہ صورتحال سے لاعلم اور جہاد کی تکلیف سےقاصرعلماء کےنام سے چند لوگوں نے تقریباب منعقد کیے،جہاد کے خلاف فتوی دیتے ہوئے اسے ایک ناجائز عمل سمجھنا افسوسناک بات ہے۔

امارت اسلامیہ کی قیادت سے آخری مجاہد تک  کی مطلق اکثریت دیندار طبقہ، علماء کرام اور اسلامی احکام سے واقف اشخاص کی ہیں، اگر کسی علماء کو  موجودہ جہاد کے جواز پر شک ہے یا ان کے پاس معلومات نہیں ہیں، تو دور سے فتوی نہ دے، بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق  سب سے پہلے تنازعہ سے اپنے آپ کو خوب باخبر کریں، مجاہدین کے دلائل سن  لے اور پھر مقدمہ کے بارے میں فیصلہ کریں۔

چوں کہ کابل انتظامیہ  کے چند درباری علماء کو  پچھلے 20 سالوں سے مذہب، ملک اور اقدار کے متعلق کوئی تشویش نہیں تھا، بلکہ اس کے برعکس امریکی غاصبوں سے تنخواہیں وصول کرنے کے جھوٹے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے اور خود کو  کمتر سمجھتے۔یہی درباری ملا  جمع ہوکر من پسند فتوی جاری کرتے ہیں، یہ بذات خود مذہب، اسلامی شریعت اور افغان مصیبت زدہ قوم کے خلاف عظیم اور تاریخی زیادتی ہے، جسے انجام نہیں دینا چاہیے۔

ہم سمجھتے ہیں، کہ ایسی سازشیں دشمن حلقوں  کی اشتعال انگیزی، اخراجات اور حوصلہ افزائی سے انجام ہورہی ہیں، جس کا  موجودہ جہادی سلسلے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ ان شاءاللہ وما ذلک علی اللہ بعزیز والسلام

ذبیح اللہ مجاہد ترجمان امارت اسلامیہ

10 ربیع الاول 1442 ھ بمطابق 27 اکتوبر 2020 ء