مجاہد صاحب کے چند نکات

ترتیب :سیدعبدالرزاق جنگ بندی پر بحث کرنے کاوقت ابھی نہیں پہنچا ہے-ہمیں اطمینان سے آگے بڑھنا چاہیے-ابھی تو بہت وقت باقی ہے اس مسئلہ کو زیربحث لانے کے لیے-دونوں فریقین کو آگے بڑھنا چاہیے-تاکہ پتہ چلے کہ ہر فریق اپنے ذاتی مفادات کی بجائے دین ووطن کے بلند مقاصد کےلیے جدوجہد کررہاہے-اور جب یہ بات […]

ترتیب :سیدعبدالرزاق

جنگ بندی پر بحث کرنے کاوقت ابھی نہیں پہنچا ہے-ہمیں اطمینان سے آگے بڑھنا چاہیے-ابھی تو بہت وقت باقی ہے اس مسئلہ کو زیربحث لانے کے لیے-دونوں فریقین کو آگے بڑھنا چاہیے-تاکہ پتہ چلے کہ ہر فریق اپنے ذاتی مفادات کی بجائے دین ووطن کے بلند مقاصد کےلیے جدوجہد کررہاہے-اور جب یہ بات واضح ہوجائے گی تو جنگ بندی کے حل نکالنے پر اتفاقِ رائے بھی ہوجائے گی-

یہ کوئی دانشمندی کی بات نہیں ہے کہ سب سے پہلے جنگ بندی ہونی چاہیے اور نہ یہ عقل ودلیل کاتقاضا ہے-جنگ جس وجہ سے ہورہی ہے اور جس کی بنیاد پر یہ ناگفتہ بہ کیفیت چل رہی ہے پہلے اس علت اور سبب کی تشخیص کرلینی چاہیے-اس علت کی تعیین کے بعد اس کو متفقہ طور پر ختم کرلینا چاہیے-مذاکرات میں جانبِ مقابل کو آزمائشی دور کو کامیابی سے گزارنا چاہیے-کسی تاک میں لگنے سے بچنا چاہیے اور عام باتوں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے-پھر یہ بات انتہائی قابلِ غور ہے کہ جنگ بندی کے لیے اس وقت حالات بالکل سازگار نہیں ہیں-ہم اس وقت پہاڑوں میں بسیرا کیے ہوئے ہیں اور جانبِ مقابل آرام دہ ایوانوں میں ہے ایسے میں اگر جنگ بندی ہوگی تو مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوجائے گا -اور جانبِ مقابل محض وقت ضائع کرے گی -چھوٹی چھوٹی باتوں پر رکاوٹیں ڈالے گی-

جنگ بندی سے پہلے ان مسائل پر بحث اور گفتگو ہونی چاہیے جن کاحل نکالنا آسان اور اس پر موافقت ممکن ہے-اس سے جانبین میں اعتماد کی فضاء آئے گی جس سے آگے کے مراحل میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں-

قطر میں موجود دونوں مذاکراتی ٹیموں کا میکانزم پر اتفاق اب بحث نظامِ حکومت سمیت ان تمام موضوعات پر ہوگی جو اس مرحلہ کو آگے جانے سے مانع بنے ہیں -بلکہ یہ کہنا مناسب ہے کہ تمام متنازع امور کو اب زیربحث لایا جائےگا-

ہم کسی عبوری حکومت کے حق میں ہیں اور نہ یہ ہمارا موقف رہا ہے-ہم ایسی باتوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں-اگر یہ ہمارا موقف ہوتا تو ہم اس کااعلان بہت پہلے کرتے-عبوری حکومت کا معنی یہ ہوگا کہ ایک ایسا نظام جس کو قائم کرنے کے بعد ہم خود ہی اسے اکھیڑدیں-اس طرح کے متزلزل نظام ہمیں کسی صورت قبول نہیں ہیں-پھر عبوری حکومت میں ہوتا یہ ہے کہ جو کچھ پہلوں کی رہزنی سے بچا ہوگا اس پر عبوری حکومت کے نام سے چند رہزن ہاتھ صاف کرلیں گے اور یہ ہمارے لیے انتہائی ناقابلِ برداشت ہے-

جو لوگ ہمیں چالیس فیصد اقتدار دینے کی بات کررہے ہیں یا قوم ولسانیت کی بنیاد پر اقتدار کو بانٹنے کی بات کرتے ہیں میں ان پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ افغانستان ایک مملکت ہے یہاں کے باشندے سب افغانی ہیں -ان میں قوم کی کوئی تفریق نہیں ہے-اس لیے ہم قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر اقتدار کی تقسیم کو کوئی اعتبار نہیں دیتے-ہمارے ساتھ ہرقوم اور ہر سابقہ جماعت کے لوگ موجود ہیں -جو سب اسلام اور افغانیت کے نقطہ پر یکجا ہے اس لیے دوسری بنیادوں اور ان بنیادوں پر نکلنے والے نتائج کو ہم قابل اعتناء نہیں سمجھتے-

ہم موجودہ انتظامیہ کے حوالہ سے یہ موقف رکھتے ہیں کہ اس میں بعض چیزیں زبردست اصلاح کی محتاج ہیں جبکہ بعض وہ چیزیں جو استعمار کی بدولت یہاں “درآئی”ہیں ان کو اسلامی احکام اور افغانی روایات اور کلچر سے ہم آہنگ کیا جائےگا-امن وامان کو برقرار رکھنا،ہسپتال،تعمیری کام اور تعلیم میں اصلاحات کو ضروری سمجھتے ہیں-
البتہ بعض چیزیں ایسی بھی ہیں جن کا سرے سے وجود ہی ختم کرنا ضروری ہے جیسا کہ افیون اور دیگر منشیات اور ایک دن میں دو صدور کاانتخاب اور حلف برداری-

ہمیں اسلامی نظام کے سوا کوئی نظام قابلِ قبول نہیں ہے-چاہے وہ کسی بھی عنوان کے تحت ہو-ہمارا بنیادی مقصد اسلامی نظام کی حاکمیت ہے -یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہم اسلام کی کوئی نئی تشریح نہیں کرتے-اسلام کے سارے احکام مدون ہیں انہیں کو عملی شکل دینا چاہتے ہیں -میں یہ بھی واضح کردوں کہ اسلام کسی کے نقصان میں نہیں ہے-جو لوگ اسلامی نظام سے چڑتے ہیں یاتو انہیں اسلامی احکام کا مطالعہ نہیں یاپھر وہ مغرب کو ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں-

جو لوگ ہمارے خلاف ایک نئی جنگ کی تیاری کررہے ہیں ہم ان پر واضح کرتے ہیں کہ اسلامی نظام کے سامنے جو بھی جس شکل میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں ہم اسے اپنی راہ سے ہٹائیں گے اور اس بارے میں ہمیں کسی بھی چیز کی پروا نہیں ہے-اس لیے انہیں دعوتِ فکر دیتے ہیں کہ امن کے قیام میں رخنے نہ ڈالیں-ملک پر رحم کریں اور مزید دوسروں کے آلہ کار نہ بنیں اور اپنے ملک کے سودا بازی سے باز آجائیں-جتنا ھضم کیا ہے بلکہ ملک کو جتنا تباہ کیا ہے اسی کو کافی سمجھیں-ورنہ تو ان کی اب وہ پوزیشن بھی نہیں ہے جو پہلے تھی-اب ان کی پہچان قومی اور بین الاقوامی سطح پر امریکی غلاموں اور مزدوروں کی ہے-اب کوئی ان کاساتھ نہیں دے گا اس لیے وہ کسی گھمنڈ میں نہ رہے-

ہم نے امریکا کے ساتھ امن معاہدہ ایک ریاست کی حیثیت سے کیا ہے امریکا کی کسی ٹیم،انتظامیہ یاادارہ سے نہیں کیا ہے کہ اب کوئی اور آجائے اور اس ادارے کے کیے گئے معاہدہ کو ختم کرڈالے-امریکا کا سربراہ جو بھی ہو اسے معاہدہ پر ہی عمل کرنا ہے-کیونکہ جب وہ کثرت میں افغانستان کے اندر موجود تھے اور معاہدہ کرنے کے لیے مجبور ہوگئے تو قلت میں اس فیصلہ سے انحراف کرنا خود انہیں کے نقصان میں ہے-بعض امریکی سرکاری ارکان کی جانب سے اس طرح کی باتیں کرنا کہ ہم حالات دیکھیں گے -مناسب تھے تو نکل جائیں گے ورنہ یہیں رہیں گے”معاہدے کے خلاف ہیں-معاہدہ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ چودہ مہینوں میں سب بیرونی افواج کا صفایا ہوگا-اس لیے مقررہ مدت کے بعد کوئی ایک فوجی بھی یہاں رہے تو ہم سابقہ حالت کی طرف لوٹیں گے جو ان کے لیے سراسر نقصان ہے-

ہم زور زبردستی اور جنگ کے طریقہ سے افغانستان کاکنٹرول نہیں لینا چاہتے اسی لیے ہم نے مذاکرات اپنے ہاں کے بہت ہی معتمد لوگ بٹھارکھے ہیں-مگر اگر جانبِ مقابل مذاکرات میں خامخا کی بہانہ جوئی اور لیت ولعل سے کام لیں تو پھر بہرحال یہ آپشن اپناناہے-

ہم کسی دباو کے شکار بنے ہیں ہیں اور نہ ہی کسی دباو سے مرعوب ہونگے-جو کوئی ہمیں یہ الزام دیتا ہے تو وہ ثبوت بھی پیش کرے -مگر ہم سمجھتے ہیں کہ دباو کالفظ ہمارے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیاجاتا ہے اس کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں یے-

آخر میں ایک دفعہ پھر کہتاہوں کہ اسلامی نظام ہمارا بنیادی ہدف ہے اور اس کو تسلیم کرنا ہوگا-اور نہ تسلیم کرنے والوں کے لیے ہمارے پاس جہاد کاآپشن ہروقت موجود ہے-