دورہ ماسکو پر کی گئی گفتگو

ترتیب وترجمہ:سیدافغان اس وقت امارت اسلامیہ کا ایک بلند رتبہ وفد روس کے دورے پر ہے جس کی قیادت شیرِ اسلام جناب شیر محمد عباس ستانکزئی صاحب کررہے ہیں-روس میں وہاں کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے-اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے-اس موقع پر وفد کے سربراہ جناب […]

ترتیب وترجمہ:سیدافغان

اس وقت امارت اسلامیہ کا ایک بلند رتبہ وفد روس کے دورے پر ہے جس کی قیادت شیرِ اسلام جناب شیر محمد عباس ستانکزئی صاحب کررہے ہیں-روس میں وہاں کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ضمیر کابلوف کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے-اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے-اس موقع پر وفد کے سربراہ جناب ستانکزئی صاحب ایک پریس کانفرنس بھی کی جو بہت ہی اہم معلومات اور رواں بین الافغان مذاکرات سے متعلق امور پر مشتمل تھی-اہمیت کے پیش نظر چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں:

‏کابل ادارہ امن مذاکرات میں مخلص نہیں ہے-کابل انتظامیہ کے بھاگ ڈور سنبھالنے والے افراد صرف اور صرف اپنے اقتدار کو دائمی دیکھنا چاہتے ہیں-اسی لیے انہوں نے قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی اور مسلسل رکاوٹیں ڈالتے رہے-اسی لیے انہوں نے بین الافغان مذاکرات کو چھ ماہ تک معلق رکھا-اور آج بھی اسی بنیاد پر یہ لوگ جنگوں میں شدت لارہے ہیں-

افغانستان میں آئندہ آنے والا نظام اور قائم ہونے والی حکومت افغانوں کا داخلی مسئلہ ہے جس کا امریکا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے-اسی لیے ہم نے امریکا کے ساتھ صرف انخلاء اور اپنی طرف سے نقصان نہ پہنچانے کے اطمینان دلانے پر معاہدہ کیا ہے-اسی معاہدہ میں یہ واضح موجود ہے کہ افغانستان میں آئندہ ایک اسلامی نظام قائم ہوگا اور یہی نکتہ اب بین الافغان مذاکرات کے ایجنڈا میں بھی شامل ہے-


اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے امریکا کے ساتھ جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے-مگر کابل انتظامیہ نے معاہدہ کے دن سے ہی سوء استفادہ کے طور پر شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک کارروائیاں نہ صرف شروع کی بلکہ بھرپور شدت سے بھی کام لیا تب ہم مجبور ہوئے کہ دفاعی مورچہ سنبھال لیں! کابل انتظامیہ جو قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ تواتر سے کررہی ہے جنگوں میں شدت لارہی ہے در حقیقت اپنی طرف سے تشدد پالیسی کا پتہ دے رہی ہے-

دوحا معاہدہ کا بھرپور احترام اور اس پر عمل درآمد کے لیے مکمل سنجیدہ ہیں-مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ جانبِ مقابل نے متعدد دفعہ معاہدہ سے انحراف اور سخت خلاف ورزی کی ہے-


ہم نے امریکا کے ساتھ معاہدہ کیا تھا کہ ہمارے زیر تسلط علاقوں سے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور ہم نے اپنا یہ وعدہ بخوبی نبھایا ہے-یہ جو داعش اور دیگر ٹولوں کی بات کی جاتی ہے بالکل بے جا اور خلاف واقع ہے-حقیقت یہ ہے کہ داعش کو ہم نے پسپا کرکے اپنے علاقوں سے نکال باہر کیا اور اس کے لیے ہم نے اپنی کمزور ترین معیشت کے باوجود بے تحاشا خرچہ کیا اور لاتعداد شیردل جوانوں کی قربانیاں پیش کی-اس وقت اگر داعش یا دیگر جرائم پیشہ افراد موجود ہیں تو وہ کابل ادارہ کی شہ پر جی رہے ہیں اور اسی کے زیرسایہ پروان چڑھ رہے ہیں-

جب تک افغانستان میں استعماری ٹولہ کسی بھی شکل میں موجود ہوگا اس وقت تک ہتھیار رکھنے کا جواز نہ شریعت دیتی ہے نہ اسلامی غیرت اس کا جواز فراہم کرتی ہے اور نہ ہی افغانی روایات ہمیں یہ حق دیتے ہیں-آج بھی اگر اشرف غنی استعفا دے دے اور اسلامی نظام کو تسلیم کرلے اور بیرونی قوتیں مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائیں تو جنگ بالکلیہ ختم ہوجائے گی-

‏جنگ بندی بلاشبہ ایک ضرورت ہے اور اسی بنیاد پر ہم نے اپنے ایجنڈا میں اسے شامل بھی کیا ہے-مگر اس پر بات چیت مذاکرات کی میز پر ہوگی -ڈھنڈورا پیٹنے اور بے پرکی اڑانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا-


افغانستان کے لیے روس کے نمائندہ خصوصی “ضمیر کابلوف” کے ساتھ ہماری ملاقات کے اندر امریکا کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی تطبیق،آئندہ آنے والی حکومت، بلیک لسٹ سے زعماء کے ناموں کا اخراج اور دیگر موضوعات پر بحث ہوئی ہے-

امارتِ اسلامیہ امن کے لیے کوشاں اور پوری طرح سنجیدہ ہے-اسی لیے اپنی مذاکراتی ٹیم کے اندر ۷۰ فیصد ان افراد کو شامل کیا ہے جو امارتِ اسلامیہ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے ارکان اور قیادت سے تعلق رکھتے ہیں-پھر انہیں یہ کھلا اختیار دے رکھا ہے کہ یہ ٹیم جو فیصلہ کرے گی وہ فیصلہ ادنی فرد سے لے کر اعلی سطحی قیادت تک سب کو منظور ہوگا-مگر جانبِ مقابل ان اختیارات سے یکسر محروم ہے اور فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں-


ہم ایک ایسا اسلامی نظام چاہتے ہیں جو سب افغانوں کو قابلِ قبول ہو-اس میں خواتین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہو-انسانی حقوق کا خیال رکھا گیا ہو-منشیات کی فصلوں اور اسمگلنگ پر مکمل پابندی ہو-
ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد، خود مختار اور مستقل ریاست کے مالک ہو جو اغیار اور غاصبین کے تسلط سے آزاد ہو-

اہل تشیع کے ساتھ پہلے بھی ہمارے اچھے تعلقات تھے اور آئندہ بھی بہترین تعلقات کے خواہاں ہیں-ہم ان کے تمام مراسم کا احترام کرتے ہیں-ہم چاہتے ہیں کہ انہیں بھی دیگر افغانوں کی طرح آزادی ہو اور مشکلات سے دور ہو-