مجاہد صاحب کی تازہ گفتگو

ترتیب:سیدعبدالرزاق یکم فروری کو امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو دیا-جس میں ملکی سلامتی،آئندہ آنے والے نظام اور بین الافغان مذاکرات سمیت متعدد موضوعات پر امارتِ اسلامیہ کا جامع اور واضح موقف پیش کیا-اہمیت کے پیش نظر چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں: ہم ملک کے اندر ایک مضبوط مستحکم […]

ترتیب:سیدعبدالرزاق

یکم فروری کو امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد نے ایک انٹرویو دیا-جس میں ملکی سلامتی،آئندہ آنے والے نظام اور بین الافغان مذاکرات سمیت متعدد موضوعات پر امارتِ اسلامیہ کا جامع اور واضح موقف پیش کیا-اہمیت کے پیش نظر چیدہ چیدہ نکات پیش خدمت ہیں:
ہم ملک کے اندر ایک مضبوط مستحکم اور طاقتور نظام اور حکومت چاہتے ہیں-یہ ملک اور ملت کا مطالبہ اور دیرینہ آرزو ہے اور اسی سے ملک وملت کے منافع اور مفادات وابستہ ہیں-ہم جب اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں تو لوگ ڈھنڈورے پیٹتے ہیں اور عوام میں مختلف خدشات پیدا کرتے ہیں-قوم کو اس بارے میں کوئی اندیشہ نہیں رکھنا چاہیے-اسلامی نظام اور اسلامی احکام بڑے واضح ہیں اور ان کو عملی جامہ پہنانا وقت کی ایک بہت ہی اہم ضرورت ہے-اس بارے میں کوئی ایسا ابہام نہیں ہے جس سے کسی کو کوئی خطرہ محسوس ہوجائے-

دوحا معاہدہ کے لیے ہم مکمل سنجیدہ ہیں اور اس کے نفاذ میں سچے اور مخلص ہیں-کیونکہ ہم وعدہ اور عہد کی پاسداری کو ایک دینی فریضہ سمجھتے ہیں -اور اسی بنیاد پر ہم سرمو انحراف سے گریزاں رہتے ہیں-باوجود یہ کہ امریکا نے معاہدہ سے متعدد دفعہ انحراف کرکے سخت خلاف ورزی کی ہے-اپنی اچھی نیت کی بنیاد پر ان سے بھی آئندہ یہی توقع رکھتے ہیں کہ مخالفت سے باز آجائے اور اس کے نفاذ میں سنجیدگی دکھائے-

کابل انتظامیہ کے ساتھ بات چیت موقف سے پیچھے ہٹنے یا موقف بدلنے کے معنی میں ہرگز نہیں ہے-ہمارا مقصد صرف اور صرف موجودہ بحرانی کیفیت سے نکلنا ہے-
اور جب ہم نے نیک نیتی کا ثبوت دے کر انہیں بات چیت کا موقع فراہم کیا ہے تو اب یہ لازمی اور بہت ہی واضح ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اسلامی نظام پر اتفاق رائے ضرور کریں گے-اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی راہ نہیں ہے-

بین الافغان مذاکرات کا مقصد یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں ایک ایسا نظام قائم کیا جائے گا جو مضبوط، مستحکم،طاقتور اور تمام افغانوں پر مشتمل ہوگا-ایک ایسا نظام جو اسلامی بنیادوں پر استوار اور بیرونی مداخلت سے محفوظ ہوگا اور وہ نظام کبھی بھی موجودہ کٹھ پتلی نظام کی طرح نہیں ہوگا ان شاءاللہ-

کابل انتظامیہ کی حقیقت یہ ہے کہ امریکا اور جارحیت پسندوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے اسے وجود ملا ہے اور اسی مقصد کے لیے اسے بقاء اوردوام حاصل ہے -مگر افغان غیور قوم نے اسے روزِ اول سے مسترد کیا ہے -اسی لیے ہم نے اسے بطور نظام کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ کبھی کریں گے ان شاءاللہ-

کابل انتظامیہ کے افراد درحقیقت بیرونی قوتوں کے غلام ہیں جو موقع بموقع انہی بیرونی قوتوں کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں-اسی کے لیے ان کی زندگی،پروان اور بقاء ہیں-تو یہ لوگ قوم کی نمائندگی کیسے کرسکیں گے؟ انہیں نمائندہ کہنا اس قوم کے ساتھ مذاق ہے-

یہ بات میں بڑی وضاحت سے بتانا چاہتا ہوں کہ استعمار اور بیرونی جارحیت کے ہوتے ہوئے اس کے زیرسایہ کوئی نظام تشکیل دینا ہمیں کسی صورت قابلِ قبول ہے اور نہ ہی ہماری تاریخ اس کی اجازت دیتی ہے-تاریخ کے دریچوں میں یہ بات رقم ہے کہ افغانوں نے ہمیشہ ایسے نظام کو مسترد کیا ہے اس لیے اب بھی مسترد کرتے ہیں-

ہماری طرف سے تو ہم قوم کو بھی اور دنیا کو بھی اطمینان دلاتے ہیں کہ ہم دوحا معاہدہ پر سختی سے کاربند ہیں اور جانبِ مقابل سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں-لیکن خدانخواستہ اگر وہ معاہدہ کو ختم کرنے کی غلطی کر بیٹھیں گے تو اس سے بلا شبہ خود امریکا کو اس کے اندازہ سے زیادہ خسارے اور نقصانات کا سامنا ہوگا-