افغانستان جنوری 2021 میں

تحریر: احمد فارسی نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔ نیا سال امن کی امیدوں لیکن بار بار امریکی وعدوں کی خلاف ورزیوں اور کابل انتظامیہ کے مظالم […]

تحریر: احمد فارسی

نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔
نیا سال امن کی امیدوں لیکن بار بار امریکی وعدوں کی خلاف ورزیوں اور کابل انتظامیہ کے مظالم سے شروع ہوا، رواں سال کے پہلے مہینہ کے دوران مجاہدین نے کرائے کے فوجیوں پر حملے تیز کردیئے، جن میں بڑی تعداد میں دشمن کے اہل کار ہلاک اور  زخمی ہوگئے، سیاسی میدان میں بھی پیشرفت ہوئی، کابل انتظامیہ کے مختلف اداروں کے درمیان تنازعات بڑھ گئے، ان واقعات سے متعلق رپورٹ کو مندرجہ ذیل سطور میں پڑھ سکتے ہیں۔
کٹھ پتلی فورسز کے نقصانات:
جنوری کے مہینے کے دوران جھڑپوں اور مجاہدین کے حملوں میں دشمن کے سیکڑوں جنگجو مارے گئے، یکم جنوری کو سابق ایگزیکٹو کے مشیر اور اگلے روز جلال آباد میں تین اربکی کمانڈر مارے گئے، 7 جنوری کو کابل میں ایک فوجی پائلٹ مارا گیا اور اگلے دن ہرات کے ضلع غوریان کا پولیس چیف مارا گیا، 9 جنوری کو صوبہ تخار میں ایک کمانڈر مارا گیا، 11 جنوری کو کابل میں ایک سرکاری ترجمان حملہ میں ہلاک ہوا، 12 جنوری کو کابل میں ایک کمانڈر اور 14 جنوری کو صوبہ غور میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں صوبائی کونسل کا ایک ممبر ہلاک ہوگیا۔
17 جنوری کو کابل میں دو خواتین ججوں کو ہلاک کیا گیا، 18 جنوری کو لوگر اور ہلمند کے ضلع واشیر میں دو علیحدہ واقعات میں این ڈی ایس کے دو اہلکار ہلاک ہوئے، 21 جنوری کو کابل میں شاہین کور کے دو کمانڈروں کو نشانہ بنایا گیا، 22 جنوری کو قندوز کی صوبائی کونسل کا نائب سربراہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا، 29 جنوری کو صوبہ بلخ میں ایک کمانڈر مارا گیا۔
نہتے شہریوں پر تشدد:
یکم جنوری کو صوبہ دایکندی میں ایک پولیس اہل کار نے دو ڈاکٹروں کو گولی مار کر شہید کر دیا، 7 جنوری کو صوبہ ہلمند میں دشمن کے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت ایک خاندان کے 9 افراد شہید ہوگئے، 10 جنوری کو صوبہ نیمروز میں افغان فورسز کی گولہ باری کے نتیجے میں 18 شہری شہید ہوئے، 11 جنوری کو سیکورٹی فورسز نے صوبہ بدخشاں میں سونے کی منڈی کو آگ لگا دی، 15 جنوری کو صوبہ خوست میں پولیس اہل کاروں نے ایک ڈاکٹر سمیت چار افراد کو شہید کر دیا۔
19 جنوری کو صوبہ فاریاب میں جنرل دوستم نے ایک بار پھر گل جم ملیشیا کے ساتھ نہتے شہریوں کے گھروں پر حملہ کیا، 26 جنوری کو دشمن کے شرپسند عناصر نے صوبہ فراہ میں ایک بازار پر حملہ کیا، 28 جنوری کو صوبہ غزنی میں 8 شہریوں اور خوست میں دو شہریوں کو شہید کر دیا گیا۔
مذکورہ بالا واقعات چند مثالیں ہیں، شہری ہلاکتوں کی صحیح تعداد اور واقعات کی مکمل رپورٹ امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں ملاحظہ کیجئے۔
مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنا:
امارت اسلامیہ نے 6 جنوری کو رپورٹ جاری کی کہ گزشتہ ماہ کے دوران دشمن کے 1300 سے زائد اہل کار امارت اسلامیہ کے سامنے سرنڈر ہوگئے ہیں، 21 جنوری کو امارت اسلامیہ نے سالانہ رپورٹ جاری کی جس کے مطابق 2020 میں کابل انتظامیہ کے 13 ہزار سے زائد اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے ہیں، یکم جنوری کو قندہار میں دشمن کے 17 فوجی اور پولیس اہل کار مجاہدین میں شامل ہوئے، 10 جنوری کو صوبہ تخار میں دشمن کے 52 اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کیا، 18 جنوری کو صوبہ بلخ میں کابل انتظامیہ کے 70 سے زائد فوجیوں اور پولیس اہل کاروں نے مجاہدین کے سامنے سرنڈر ہونے کا اعلان کیا، 19 جنوری کو صوبہ تخار میں ایک بار پھر دشمن کے 60 فوجی سرنڈر ہوئے، رپورٹوں کے مطابق ماہانہ بنیاد پر 1500 فوجی اور پولیس اہل کار اور ملازمین مجاہدین میں شامل ہوتے ہیں، جن کی مکمل فہرست ہر ماہ امارت اسلامیہ کے متعلقہ کمیشن کی رپورٹ میں شائع کی جائے گی۔
الفتح آپریشن:
جیسا کہ ہم نے مضمون کے آغاز میں ذکر کیا ہے کہ مجاہدین کے حملے جنوری میں شدت اختیار کرگئے، اس دوران سیکورٹی فورسز پر سینکڑوں بڑے اور چھوٹے حملے کیے گئے، جن کی مکمل تفصیلات امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ پر شائع ہوتی ہیں، درج ذیل سطور میں بطور مثال چند حملوں اور کارروائیوں کو قلم بند کریں گے۔
2 جنوری کو جلال آباد میں مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں تین اربکی کمانڈر مارے گئے، 4 جنوری کو قندہار میں ایک رابطہ کار مجاہد نے پولیس چوکی میں اپنے 8 ساتھیوں کو ہلاک کر دیا۔ اگلے روز صوبہ غزنی میں ایک رابطہ کار سپاہی نے اپنے 7 سپاہیوں کو مار دیا۔
7 جنوری کو صوبہ روزگان میں کابل انتظامیہ کے خصوصی دستوں کے ہیڈکوارٹر پر شدید حملہ کیا گیا جس میں دشمن کے متعدد اہلکار ہلاک اور زخمی ہوگئے۔ 14 جنوری کو صوبہ بغلان میں دشمن کے 10 کمانڈو مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہوئے، 15 جنوری کو قندوز میں مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں 24 فوجی ہلاک ہوگئے، اسی دن صوبہ غزنی میں کمانڈو بیس پر مجاہدین نے حملہ کیا جس میں دشمن کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ نیز اسی روز قندوز پامیر کور پر مجاہدین نے ڈرون حملہ کیا۔
16 جنوری کو صوبہ ہرات میں ایک رابطہ کار مجاہد کے حملے میں 13 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے، اسی دن صوبہ ہلمند میں سیکورٹی فورسز کے مرکز اور قندھار میں اسپیشل فورسز پر ہلاکت خیز حملوں میں دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا۔ 19 جنوری کو صوبہ قندوز کے دارالحکومت اور ضلع برچی میں مجاہدین کے زبردست حملوں میں دشمن کے 45 فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے، 24 جنوری کو ننگرہار میں مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں درجنوں کمانڈوز ہلاک ہوگئے، 26 جنوری کو کنڑ میں دشمن کے کمانڈوز مجاہدین کے حملوں کی زد میں آئے، اور متعدد کمانڈو ہلاک اور زخمی ہوئے، 30 جنوری کو ننگرہار میں دشمن کے فوجی اڈہ پر مجاہدین نے حملہ کیا جس میں دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا۔
امن معاہدہ:
امارت اسلامیہ نے 4 جنوری کو ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ قابض دشمن نے مجاہدین پر فضائی حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے جو نہ صرف دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے، 29 جنوری کو امریکہ کے وزارت دفاع “پینٹاگون” نے کہا کہ طالبان اپنے وعدوں پر عمل نہیں کررہے ہیں، امارت اسلامیہ نے یہ بے بنیاد دعوی مسترد کر دیا، دوحہ معاہدے کے تحت 4 جنوری کو قابض امریکی فوجیوں نے صوبہ لوگر میں ایک بڑا فوجی اڈہ بند کر دیا، 20 جنوری کو بائیڈن انتظامیہ کے نئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم افغانستان میں جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنی فوجیوں کو واپس امریکہ بلانا چاہتے ہیں، 28 جنوری کو وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ خلیل زاد کا امن مذاکرات میں اہم کردار ہے، اس لئے وہ اپنے عہدے پر برقرار رہیں گے، 30 جنوری کو وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن بھی افغانستان سے فوج واپس بلانے کے وعدے پر قائم ہیں۔
کابل انتظامیہ میں اختلافات کا نیا سلسلہ:
کابل انتظامیہ کے مختلف اداروں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے، ان کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے، 6 جنوری کو اشرف غنی نے پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اختارات میں مداخلت قبول نہیں کریں گے، 2 جنوری کو ننگرہار کے گورنر اور 23 جنوری کو وزیر خزانہ ارغندیوال کو برطرف کر دیا گیا، ماہ جنوری میں ایوان صدر اور پارلیمنٹ کے درمیان میڈیا پر شدید اختلافات اور گزشتہ سال کے بجٹ میں کرپشن اور خورد برد کے الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہوا، پارلیمنٹ کے ارکان نے ایوان صدر پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کو برقرار کھنے، امن عمل کو سبوتاژ کرنے اور کرپشن کرنے میں ملوث ہے، جس پر ایوان صدر نے بھی ردعمل میں پارلیمنٹ کے ارکان پر کرپشن اور رشوت ستانی کے الزامات لگائیں۔
چور اور چوری کی واردات:
22 جنوری کو ایک نیوز کانفرنس میں انجینئر گلبدین حکمت یار نے انکشاف کیا کہ نامعلوم جہازوں کے ذریعے افغانستان سے نقد رقم اور سونا کی اسمگلنگ جاری ہے، اس خبر کے بعد 24 جنوری کو سیگار نے کابل انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ کابل ائیرپورٹ سے ڈالروں کی اسمگلنگ کو روکے، ارکان پارلیمنٹ نے بھی الزام لگایا کہ ایک عرب ملک نے اشرف غنی سے شکایت کی کہ ان کی اہلیہ چوری شدہ ڈالر اس ملک کے راستے اسمگل نہ کریں۔
سبکدوش وزیر خزانہ ارغندیوال نے بھی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایوان صدر کے حکام اور ان کے قریبی لوگوں کو ملک کے ٹیکسوں اور محصولات تک رسائی سے روکنے پر انہیں برطرف کردیا گیا۔