امارت اسلامیہ افغانستان کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد سے ماہنامہ شریعت کی گفتگو

گفتگو: اکرم تاشفین، سید عبدالرزاق شریعت: امریکا میں انتظامیہ کی تبدیلی اور نئے صدر کی آمد سے امریکا کی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں اور تغیرات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس سے امریکا اور امارت اسلامیہ کے تعلقات  اور افغانستان کے حالات پر کتنے اثرات پڑیں گے؟ ذبیح اللہ مجاہد: حامد […]

گفتگو: اکرم تاشفین، سید عبدالرزاق

شریعت: امریکا میں انتظامیہ کی تبدیلی اور نئے صدر کی آمد سے امریکا کی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں اور تغیرات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ اس سے امریکا اور امارت اسلامیہ کے تعلقات  اور افغانستان کے حالات پر کتنے اثرات پڑیں گے؟
ذبیح اللہ مجاہد: حامد ومصلیا امابعد! جی بالکل امریکا میں انتظامیہ کی تبدیلی سے داخلی طور پر تو یہ تصور ہے کہ تبدیلیاں ہوں گی مگر امارت اسلامیہ اور امریکا کے درمیان معاہدہ ایک استثنائی معاملہ ہے۔ کیوں کہ دوحہ معاہدے میں صرف ایک جماعتی ٹیم شریک نہیں تھی۔ بلکہ اس میں امریکا کے تمام بااختیار اور پالیسی ساز اداروں کے نمائندے اور لوگ شریک تھے جو امریکا کے قومی مفاد کا تعین دیکھتے اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں ہر ملک میں ایک سیاسی انتظامیہ ہوتی ہے جو قوانین کی تنفیذ کرتی ہے۔ جبکہ کچھ ادارے وہ ہوتے ہیں جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور ملکی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔ امریکا سے جب ہمارے مذاکرات ہورہے تھے ان مذاکرات میں امریکا کے انہیں اداروں کے نمائندے شریک رہے جو امریکی اسٹریٹجی کی بنیاد ہیں۔ دوحہ معاہدہ بھی امریکا کا سٹریٹیجک فیصلہ تھا۔ امریکی تاریخ کی سب سے طویل جنگ اختتام کو پہنچ رہی تھی۔ اس سے امریکا کا قومی مفاد وابستہ تھا کہ یہ جنگ ختم ہو۔ امریکا کے نقصانات کم ہوجائیں۔ اس کی عالمی ساکھ گرنے سے بچ جائے۔ امریکی معیشت کی تباہی یا اس کو پہنچنے والے شدید نقصان کا راستہ روکا جائے۔ یہ سب قومی مفاد اور اسٹریٹجک مسائل ہیں۔ دوحہ معاہدہ انہیں کی بنیاد پر ہوا ہے۔
دوسری طرف ہماری کوشش یہ تھی کہ افغانستان پر دو عشروں سے قائم بیرونی جارحیت کا خاتمہ ہوجائے۔ افغانستان پر امن ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر امریکا میں نئی انتظامیہ آئی ہے یا حکومت بدل گئی ہے تو نئی حکومت بھی اسی راہ پر چلے گی کیوں کہ اسی میں امریکا کا قومی مفاد ہے۔ یہی امریکا کی اسٹریٹجی ہے۔ اس معاہدے میں وہ سب لوگ شریک تھے جو امریکی پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں۔
اگر پھر بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ لوگ غلط فیصلہ کرتے ہیں۔ معاہدہ توڑدیتے ہیں۔ یا معاہدے میں تعطل ڈالدیتے ہیں تو اس کا فوری نقصان بھی امریکا کو ہوگا۔ یہ جنگ اب بھی امریکا کے بس سے باہر ہوچکی ہے۔ جنگ کی طوالت سے امریکی معیشت بھی مصروف ہوگی۔ اس کی ساکھ متاثر ہوگی اور اس کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اور یہ فطری امر ہے کہ افغان عوام اپنے ملک کو آزاد کرکے ہی چھوڑیں گے۔ معاہدے کے ذریعے نہ ہو تو بھی اپنے ملک کی آزادی ان کی آخری آرزو ہے۔ اگر کوئی معاہدہ توڑتا ہے تو  ہم بھی مجبور ہیں، ہمیں اپنے ملک کو آزاد کرنا ہے۔ ہم جنگ کے ذریعے بھی اپنے ملک کو آزاد کرائیں گے۔ یہ امریکا کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ ہمارا نہیں خیال کہ امریکا یہ معاہدہ توڑے گا کیوں کہ اسے اب اتنا تجربہ ہوچکا ہوگا۔ گزشتہ بیس سال کا عرصہ امریکا کے لیے سبق کا بہترین ذریعہ تھا۔
شریعت: میڈیا پر کچھ ایسی خبریں گردش کررہی ہیں کہ امریکا کی نئی انتظامیہ دوحہ معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے آپ کا موقف کیا ہے؟
ذبیح اللہ مجاہد: جی ہاں ایسی خبریں سننے میں آرہی ہیں ۔ مگر اس کی وضاحت  نئے امریکی وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس میں کی کہ ہماری حکومت نئی ہے اس لیے ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ دوحہ معاہدے کی رو سے امریکا پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور طالبان کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔  معاہدے کو سمجھنا ہر شخص کا حق ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ کو بھی معاہدے کی شرائط اور مشتملات کو سمجھنا اور اس سے آگاہ ہوجانا چاہیے۔ معاہدے پر نظر ثانی کا مطلب یہ نہیں کہ معاہدے کو توڑ کر پھر سے اس پر غور کیا جائے اور نئے مذاکرات ہوں گے۔ اس  کے لیے ہم بالکل تیار نہیں ہیں۔ نہ ایسا ہونا ہمارے لیے قابل قبول ہوگا۔ ہم چاہتے ہیں کہ معاہدے پر عمل درآمد ہو۔ اگر کوئی اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تو اس کا نقصان بھی انہیں کو ہوگا۔ کیوں کہ اس معاہدے پر اٹھارہ ماہ کا عرصہ لگا ہے۔ یہ تکمیل شدہ حتمی معاہدہ ہے۔ اس میں مزید کسی تبدیلی یا دست اندازی کی گنجائش نہیں ہے۔  امریکا کی نئی انتظامیہ کا مقصد اگر نظرثانی سے اس کو سمجھنا ، اس کا مطالعہ کرنا اور اپنی اور ہماری شرائط کو پڑھنا اور سمجھنا ہے تو یہ درست بات ہے، اگر اس کو توڑنا اور دوبارہ طے کرنا ہے تو اس سے بات پھر جنگ تک پہنچ جائے گی۔
شریعت: امریکا  اور مقابل افغان فریق کا کہنا ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے کی شرائط پر عمل نہیں کیا ہے۔ یہ کون سی شرائط ہیں اور آپ نے کتنا اس پر عمل در آمد کیا ہے؟
ذبیح اللہ مجاہد: یہ بات درست نہیں کہ ہم نے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کیا۔ دوحہ معاہدے کی پہلی شرط یہ تھی کہ افغان سرزمین سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ اس  کے لیے ہم تیار ہیں۔ جتنا علاقہ ہمارے زیر کنٹرول ہے اس میں ہم کسی کو یہ اجازت نہیں دیں گے کہ کوئی افغانستان کی سرزمین سے امریکا اور اس کے اتحادیوں  کو کوئی نقصان پہنچائے۔ اس کی ہم روک تھام  کریں گے ،ہم نے معاہدے میں یہ وعدہ کیا ہے۔ اسی طرح اگر ہم پورے افغانستان کی تسخیر کرلیں اور ایک واحد نظام قائم ہو تو  وہ بھی اس  شرط پر عمل کرے گا کہ افغانستان کی سرزمین امریکا اور اس کےاتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔ دوسری شرط یہ تھی کہ امریکی فورسز چودہ مہینوں میں مکمل انخلا کریں گی ۔ اس کے ہم منتظر ہیں۔  امریکا کی ذمہ داری ہے کہ اس پر عمل کرے۔ تیسری شق یہ ہے  کہ بین الافغان مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ اس کا آغاز ہوچکا ہے یہ معاہدے کی اہم شقوں میں سے ایک شق ہے۔ چوتھی شق یہ تھی کہ ان بین الافغان مذاکرات میں جنگ بندی بھی ایک قابل بحث موضوع ہوگی۔ ہم اس کے لیے بھی تیار ہیں۔ جو ایجنڈا ہم نے مرتب کیا ہےبین الافغان مذاکرات کے لیے، اس میں جنگ بندی کا موضوع شامل ہے۔ یہ موضوع مذاکرات کے آخر میں بحث کے لیے رکھا ہے تا کہ اس سے قبل  ہم ایک نتیجہ پر پہنچ سکیں۔
یہ چار بڑی شقیں ہیں ، ہم ان سب پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔ ذیلی  طورپر کچھ خلاف ورزیاں امریکا نے کی ہیں ۔ مثلا قیدیوں کی پندرہ دن کے اندر اندر رہائی ، آپ نے دیکھاکہ یہ سلسلہ چھ مہینے تک پہنچ گیا۔ مذاکرات کا جلد آغاز ہونا چاہیے تھا۔ اس میں تاخیر کی گئی۔ اسی طرح کچھ علاقوں میں امریکی فورسز نے بمباریاں کی ہیں۔ یہ بمباریاں نہیں ہونی چاہییں ، جس طرح ہماری طرف سے معاہدے کے بعد کسی امریکی اڈے یا چھاونی پر حملہ نہیں ہوا۔ اس کا اعتراف بھی انہوں  نے بار بار کیا ہے۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ہم اپنے کیے ہوئے تمام وعدوں پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں۔ داخلی فورسز پر اگر ہم نے حملے کیے ہیں تو ان سے ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ اس میں بھی اکثر ایسا ہوا ہے کہ جنگ انہوں نے خود شروع کی ہے۔ کارروائی انہوں نے خود شروع کی ، ہم نے اس کا جواب دیا ہے۔  رواں سال ہم نے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی، تاکہ جنگ کی سطح نیچے رہے۔ جب داخلی فورسز ہمارے علاقوں میں آئیں گی اور چیک پوسٹس قائم کریں گے ، اپنے مراکز بنائیں گے یا  ہمارے علاقے اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کریں گے تو ہم مجبورا اپنا دفاع کریں گے۔ اس سے جنگ تو ہوگی جس کے ذمہ دار بھی یہ خود ہوں گے۔
شریعت: وہ کون سی شرائط ہیں جن پر عمل درآمد امریکا کے لیے لازم تھا۔ اس پر کتنا عمل درآمد کیا گیا ہے؟
ذبیح اللہ مجاہد: میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ دوحہ معاہدے میں امریکا پر لازم تھا کہ چودہ ماہ میں تمام افواج کا انخلا کرے گا۔ پانچ ہزار قیدی پندرہ دن میں رہا کیے جاتے، جس میں مختلف مشکلات ڈالی گئیں۔ بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے بعد  تین ماہ کے اندر بقیہ تمام قیدیوں کی رہائی ہونی تھی جو اب تک نہیں ہوئی۔ امریکا نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا۔  بین الافغانی مذاکرات کے آغاز کے بعد تین ماہ کے اندر ہمارے تمام رہنماوں کے ناموں کا بلیک لسٹ سے اخراج ہونا تھا۔ اور جو  پابندیاں ان پر عائد ہیں ان کا خاتمہ ہونا تھا۔ جس پر اب تک عمل نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ امریکا کو جنگ کے علاوہ کسی بھی علاقے میں بمباری کی اجازت نہیں کہ وہ بمباری کریں ،  عوام کو نشانہ بنائیں یا چھاپے ماریں۔ کابل انتظامیہ کو بھی اجازت نہیں دیں گے کہ وہ بمباری کریں یا چھاپے ماریں۔ حالانکہ اس شرط کی بھی خلاف ورزی کرچکے ہیں۔ اب بھی یہ لوگ کئی علاقوں میں بمباریاں کرچکے ہیں اور عوام کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
شریعت:  امریکا اپنی فوج کے انخلا  کی مدت میں مزید  توسیع چاہتا ہے۔ تاکہ اس دوران بین الافغانی مذاکرات کسی نتیجے تک پہنچ جائیں اور امریکا ذمہ دارانہ انداز میں انخلا کرسکے۔
ذبیح اللہ مجاہد: امارت اسلامیہ اس بات کی اجازت بالکل نہیں دے گی کہ اس میں توسیع کی جائے۔ ہم نے چودہ ماہ کے عرصے پر بہت مشکل سے آمادگی ظاہر کی تھی۔ اٹھارہ ماہ تک مذاکرات اسی نکتے پر اٹکے رہے کہ ہم جلد از جلد بیرونی قوتوں کا انخلا چاہتے تھے، مقررہ مدت کے خاتمے کے بعد ایک دن کی انہیں اجازت نہیں دی جائے گی اور اس کا انہیں کوئی حق بھی حاصل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ  بین الافغانی  مذاکرات افغانوں کا داخلی مسئلہ ہے۔ امریکی فریق کے ساتھ معاملات اب اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔ اس لیے انہیں چاہیے کہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے افغانستان سے نکل جائیں اور جارحیت کا خاتمہ کردیں۔ جارحیت کے خاتمہ کے بعد افغان عوام کو خود فرصت میسر آجائے گی کہ وہ مل بیٹھ کر مسئلے کا حل نکالیں۔ اگر امریکی فورسز یہاں رہیں گی تو اس سے کابل انتظامیہ کو اور بھی اپنے ناجائز مطالبات افغان عوام سے منوانے کا موقع ملتا رہے گا۔ جو جنگ میں طول کا باعث ہوگا۔ اس لیے معاہدے پر صحیح عمل درآمد اور جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا کو اپنے وعدے پر عمل درآمد کرتے ہوئے معاہدے کے چودہ ماہ پورے ہونے پر اپنی تمام افواج افغانستان سے نکال لینی چاہئیں۔ جارحیت ختم کرکے اس کے خاتمے کا اعلان کرے۔ امارت اسلامیہ اس بات کی ضمانت دیتی ہے  کہ ان کی سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی ۔ داخلی طورپر افغان عوام بین الافغان مذاکرات  آگے بڑھائیں  گے جس کے نتیجے  میں ایک وسیع تر نظام قائم ہوگا جس میں تمام افغانوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ جس سے امن اور استحکام آئے گا۔
شریعت: امن  پروسس میں کابل انتظامیہ کا کردار کیسا رہا؟
ذبیح اللہ مجاہد:امن پروسس میں کابل انتظامیہ کا کردار افسوسناک رہا۔ ان کی کوشش تھی کہ دوحہ معاہدہ سرے ناکام ہو۔ یہ معاہدہ طے ہی نہ ہونے پائے۔ مگر ان کا زور نہیں چل رہاتھا۔ کیوں کہ وہاں امریکا براہ راست ہمارے سامنے تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ معاہدہ  طے پائے۔ اور وہ ہوگیا۔ اس کے بعد اس معاہدے پر عمل درآمد میں کابل انتظامیہ جتنی رکاوٹیں ڈال سکتی ہے ڈال رہی ہے۔ پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی میں تاخیر، حالیہ بقیہ قیدیوں کی رہائی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں، ایجنڈا پر بے مقصد طویل بحثیں، وقت کا ضیاع۔
اب بھی کابل انتظامیہ کے سربراہ ہوں یا نائب، جب بھی  بات کرتے ہیں جنگ اور طاقت کی بات کرتے ہیں۔  دباو اور عسکری  کارروائیوں کی بات کرتے ہیں۔ ان سب کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ خود نہیں چاہتے کہ مذاکرات کامیاب ہوں ، ہم کسی نتیجے پر پہنچ جائیں اور امن قائم ہوجائے۔ یہ لوگ اپنے اقتدار کا دوام چاہتے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں امریکی فورسز ان کی حمایت کے لیے اب بھی یہاں رہیں۔ ان کا یہ خیال غلط ہے۔ افغانوں نے پکا عزم کرلیا ہے۔ جیسے جیسے امریکا کے ساتھ ہمارے مسائل ہوں گے اور یکسوئی ملے گی  داخلی مسائل افغان عوام خود حل کریں گے۔  کوئی چاہے یا نہ چاہے یہاں امن اور استحکام آئے گا۔ یہ افغان عوام کا فیصلہ ہے۔ اس سے کابل انتظامیہ تنہا ہوجائے گی ۔ اب بھی تمام سیاسی سٹیک ہولڈرز اس کے خلاف کھڑے ہیں۔
شریعت: بین الافغان مذاکرات کس مرحلے میں ہیں؟ کیسےچل رہے ہیں؟
ذبیح اللہ مجاہد: جی بالکل مذاکرات  ایک سلسلہ ہے ۔ مذاکرات شروع ہیں۔  مختلف مراحل طےپاچکے ہیں۔ البتہ اونچ نیچ مذاکرات میں آتے رہتے ہیں۔ یہ مراحل ہم طے کرتے رہیں گے۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ دونوں فریق مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں۔  امارت اسلامیہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ وہاں ایک مضبوط ٹیم متعین کی ہے۔ طاقتور با اختیار لوگ وہاں مقرر کیے گئے ہیں مذاکرات کی میز پر۔ وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ مذاکرات کا تسلسل نہ ٹوٹے، مذاکرات کے تمام مشتملات زیر غور رہیں۔ حالیہ دنوں میں مذاکرات کا سلسلہ کچھ کمزور ہوا ہے، مگر یہ بھی معمول سے ہٹ کر چیز نہیں ہے۔ ہر مذاکرات میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے۔ امید ہے یہ سلسلہ پھر سے مضبوط ہوگا، آگے بڑھے گا اور امید ہے اچھے فیصلے سامنے آئیں گے۔
شریعت: پچیس جنوری کو اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ اس کی آئندہ کانفرنس میں امارت اسلامیہ کے نمائندوں کو بھی مدعو کیا جائے گا اور اس میں افغان مسئلے پر بات چیت کا انتظام کیا جائے گا۔ اس حوالے سے آپ کا موقف کیا ہے؟
ذبیح اللہ مجاہد: اسلامی ممالک کی تنظیم کی جانب سے  جب  باقاعدہ دعوت نامہ موصول ہوگا تب امارت اسلامیہ اس پر غور کرکے شرکت یا عدم شرکت کا فیصلہ کرے گی ۔ میرے علم میں تاحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ امارت اسلامیہ نےوہاں جانے کا فیصلہ یا عزم کیا ہو۔  ابھی ان کی جانب سے کانفرنس کا ایجنڈا موصول ہونے کے بعد دیکھا جائے گا کہ یہ افغان عوام کے مفاد میں ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو شرکت کرلیں گے اگر نہیں تو اس پر غور کیا جائے گا۔
شریعت: حال ہی میں امارت اسلامیہ کے دو  اعلی سطحی وفود نے ایران اور روس کا دورہ کیا ۔ ان دوروں کے مقاصد اور وجوہات کیا تھیں؟
ذبیح اللہ مجاہد: ایران اور ماسکو کا دورہ امارت اسلامیہ کے ان دوروں کا تسلسل ہے جو ہم خطے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات اور مسائل کے پرامن حل کے لیے کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔  تاکہ دوطرفہ اعتماد قائم ہو۔ بعض مسائل پر وضاحتیں سامنے آئیں اور کسی کو تشویش نہ رہے۔ امریکا کے ساتھ  ہمارے مذاکرات چل رہے ہیں۔ یہاں طویل جارحیت کا خاتمہ ہونے والا ہے، اس لیے کسی کو  افغان سرزمین کے حوالے سے فطری طورپر کسی کو  کوئی خدشہ نہ رہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں کوئی غلط فہمی نہ رہے اور افغانستان کے مسئلہ میں جتنا تعاون یہ لوگ کرسکتے ہیں  ، سیکیورٹی  اور معیشت  کے معاملات میں تعاون کریں۔ اسی طرح ایران میں ہمارے لاکھوں افغان بھائی مہاجر ہیں۔ ایران کے ساتھ ہماری سرحد ہے ، سرحدی مسائل اٹھتے ہیں۔ کبھی کبھی وہاں فائرنگ بھی ہوجاتی ہے لوگ شہید بھی ہوجاتے ہیں۔ اس سرحد پر ہمارے بہت سے افغان بھائیوں کو اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایران میں ہمارے افغان مہاجرین بھائیوں کو بہت سی تکالیف اٹھانی پڑجاتی ہیں۔ یہ سارے مسائل خدشات کی صورت میں ہمارے سامنے تھے۔ ایران کے دورے کا مقصد ہمارا یہی تھا کہ مہاجرین  کے مسائل پر بحث کی جائے۔ ایران سے روزمرہ تعلقات ، سرحد کے مسائل   اور تجارتی واقتصادی معاملات زیر بحث لائے جائیں۔ افغانستان اور خطے کے امن کے حوالے سے بھی بات چیت ہوسکے۔
اسی طرح ماسکو جانے والے وفد کا مقصد بھی یہی تھا کہ روس کے ساتھ ہمارے بہتر تعلقات قائم ہوں۔ ایک دوسرے کے متعلق غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں اور ایک دوسرے سے خطرہ نہ محسوس کیا جائے۔ تعاون کے وقت  میں ہمارے ساتھ  تعاون کرسکیں۔ تجارت اور آمد ورفت میں عوام کو ریلیف مل سکے۔ کم از کم یہ کہ ہمارے خلاف کوئی اقدام نہ کریں ۔ گزشتہ بیس سالوں میں ہمارے خلاف بہت شدید پروپیگنڈا کیا گیا۔ ہم چاہتے ہیں اس پروپیگنڈے کا خاتمہ کریں اور ایک نارمل  صورتحال قائم ہو۔ بیرون ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات افغان عوام کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں ہر ملک کے ساتھ تجارتی، سفارتی اور سماجی تعلقات اور رابطے بحال رہیں اور سب کے ساتھ اچھے تعلقات رہیں۔
شریعت: بہت شکریہ! وقت دینے کا ۔
ذبیح اللہ مجاہد: آپ کا بھی بہت شکریہ کہ آپ نے گفتگو کے لیے وقت دیا۔ السلام علیکم