افغانستان مارچ 2021 میں

تحریر: احمد فارسی نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔ مارچ 2021 کا مہینہ اس سال کے پہلے دو ماہ کی طرح غیر یقینی صورتحال کے ساتھ اختتام […]

تحریر: احمد فارسی
نوٹ: یہ تحریر ان واقعات اور نقصانات پر مشتمل ہے جن کا دشمن نے بھی اعتراف کیا ہے۔ مزید اعداد و شمار دیکھنے کے لئے امارت اسلامیہ کی آفیشل ویب سائٹ کا وزٹ کیجئے۔
مارچ 2021 کا مہینہ اس سال کے پہلے دو ماہ کی طرح غیر یقینی صورتحال کے ساتھ اختتام پذیر ہوا، جس میں کبھی جنگ اور کبھی بین الافغان مذاکرات میں فریقین آمنے سامنے ہوتے تھے۔
مارچ کے دوران دشمن نے متعدد بار اپنے وعدوں سے انحراف کیا اور مجاہدین پر حملے کئے جس کے جواب میں مجاہدین نے دشمن کو سبق سکھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے حملے کیے۔
اس ماہ کے دوران عسکری اور سیاسی محاذوں پر گرما گرمی جاری رہی، متعدد علاقے مجاہدین کے کنٹرول میں آگئے اور دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا، ان اور کچھ دیگر واقعات کی رپورٹ مندرجہ ذیل سطور میں ملاحظہ کیجئے۔
افغان فورسز کے جانی اور مالی نقصانات:
مارچ میں قابض افواج کے وعدوں کی خلاف ورزی کی وجہ سے مجاہدین کے حملے تیز ہوگئے اور دشمن پر متعدد حملے کیے گئے، اس دوران دشمن کے درجنوں فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
اگرچہ دشمن کے جانی اور مالی نقصانات کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکی ہے، تاہم چند واقعات بطور مثال پیش کریں گے۔
9 مارچ کو صوبہ غزنی کے ضلع دہ یک کا پولیس چیف مارا گیا، 12 مارچ کو مجاہدین کے ساتھ جھڑپ میں قندھار کا ایک سینئر کمانڈر ہلاک ہوا، اور اسی دن پکتیا میں ایک جج مارا گیا۔
15 مارچ کو صوبہ زابل کے ضلع نو بہار کے نمائندے کو صوبائی دارالحکومت میں ہلاک کیا گیا، 18 مارچ کو صوبہ میدان وردگ کے ضلع بہسود میں ہزارہ مزاحمت کاروں نے ایک ہیلی کاپٹر مار گرایا، جس میں ایک کمانڈر سمیت چار پائلٹ ہلاک ہوگئے۔
20 مارچ کو پکتیا کی صوبائی کونسل کا رکن اور صوبہ غور میں ضلع تیوری کا ضلعی گورنر مارا گیا، 27 مارچ کو صوبہ ہلمند کے ضلع سنگین کا پولیس چیف مارا گیا، 28 مارچ کو کابل کے ضلع پغمان میں دشمن کا ایک کمانڈر مارا گیا، 31 مارچ کو صوبہ لوگر میں ایئر فورس کا ایک کمانڈر مارا گیا اور صوبہ کاپیسا میں ایک سینئر سیکیورٹی آفیسر مارا گیا۔
دشمن کی ہلاکتوں کے بارے میں مکمل تفصیلات “الفتح آپریشن” کے عنوان کے تحت رپورٹ میں ملاحظہ کیجئے۔
شہریوں پر تشدد:
مارچ کے دوران شہریوں پر دشمن کے حملوں میں اضافہ ہوا، ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ کابل انتظامیہ کی افواج نے اپنے غیر ملکی آقاؤں کی مدد سے عام شہریوں کو جانی اور مالی نقصان نہیں پہنچایا، ذیل میں نہتے شہریوں پر تشدد اور ان کے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں چند واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں، مزید تفصیلات امارت اسلامیہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خصوصی رپورٹ میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
شہری ہلاکتوں کے سلسلے میں یکم مارچ کو افغان فورسز کی گولہ باری سے صوبہ بادغیس میں 13 شہری شہید اور زخمی ہوئے، اسی روز کابل میں پولیس کی فائرنگ سے ایک خاندان کے تین بھائی شہید ہوگئے۔
5 مارچ کو دشمن کے فضائیہ نے صوبہ قندھار میں ایک مدرسے پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں متعدد طلبہ اور قرآن پاک کے حفاظ شہید اور زخمی ہوگئے۔ اسی روز صوبہ کاپیسا میں سیکورٹی فورسز نے 15 شہری مکانات کو تباہ کردیا۔ 11 مارچ کو سفاک دشمن نے ننگرہار میں ایک مدرسہ کو نشانہ بنایا جس میں دس حفاظ کرام شہید ہوگئے۔ 27 مارچ کو درندہ صف فوجیوں نے خوست کے ضلع صبری میں شہری آبادی پر حملہ کیا جس میں خواتین اور بچوں سمیت 17 شہری شہید ہوگئے۔
الفتح آپریشن:
جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ مارچ کے دوران مجاہدین کے حملوں میں شدت آئی جس سے دشمن کو کافی جانی اور مالی نقصان ہوا، یہاں چند واقعات بطور مثال پیش کریں گے۔
2 مارچ کو کاپیسا میں مجاہدین کے ساتھ لڑائی کے دوران 19 فوجی مارے گئے۔ 7 مارچ کو صوبہ بلخ میں مجاہدین کے ساتھ ایک جھڑپ میں دشمن کے 12 فوجی ہلاک ہوگئے۔ اسی دن خوست میں دشمن نے مجاہدین پر چھاپہ مارنے کی کوشش کی، جوابی کارروائی میں دشمن کے متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
11 مارچ کو مجاہدین نے صوبہ فاریاب کے ضلع المار کو فتح کرنے کا اعلان کیا، 12 مارچ کو صوبہ میدان وردگ میں دشمن کے کانوائے پر مجاہدین نے حملہ کیا جس میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
22 مارچ کو صوبہ لوگر کے ضلع چرخ پر مجاہدین نے سفید پرچم لہرایا، 27 مارچ کو قندھار کے ضلع ارغسان میں مجاہدین نے دشمن پر بڑا حملہ کیا جس میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے، 29 مارچ کو صوبہ ہلمند میں مجاہدین نے دشمن کے کمانڈوز پر حملہ کیا جس میں متعدد کمانڈو اہل کار ہلاک ہوگئے، 31 مارچ کو فراہ میں مجاہدین نے دشمن کا بلیک ہاک ہیلی کاپٹر مار گرایا، اسی دن ہرات کے ضلع شینڈنڈ میں قومی سلامتی کے ہیڈکوارٹر اور فوجی اڈے پر مجاہدین نے بڑا حملہ کیا جس میں متعدد فوجی ہلاک اور زخمی ہوگئے۔
امن مذاکرات:
2 مارچ کو افغانستان کے امن عمل کے لئے امریکی خصوصی ایلچی زلمی خلیل زاد نے بیان دیا کہ امریکہ کا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، اسی دن امریکی کانگریس کے ایک رکن نے کہا کہ خلیل زاد افغانستان میں قابض افواج کی مدت میں توسیع کے لئے خطے کا دورہ کررہے ہیں، 4 مارچ کو وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ امریکہ افغان جنگ میں طویل مدت کے لئے شامل ہونا نہیں چاہتا ہے۔
دوسری طرف زلمی خلیل زاد نے ملک میں جنگ کے خاتمہ کے لئے عبوری اور مشترکہ حکومت کی تجویز پیش کی جسے امارت اسلامیہ نے مسترد کردیا۔ امارت اسلامیہ نے کہا کہ عبوری حکومتیں ملکی مسائل کا حل نہیں ہیں۔ 11 مارچ کو امریکہ کے وزیر دفاع نے اعلان کیا کہ جو بائیڈن افغانستان سے اپنی افواج کے انخلا کے خواہاں ہیں۔
18 مارچ کو ماسکو میں اعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں متعلقہ ممالک کے علاوہ افغانستان کے دونوں فریقوں کے وفود نے شرکت کی، اگلے روز چار ممالک نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ افغانستان میں امارت اسلامیہ کا سابقہ نظام نہیں چاہتے ہیں جس پر امارت اسلامیہ نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اس کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔
انتباہ:
امارت اسلامیہ نے 17 مارچ کو دھمکی دی کہ اس کے بعد قابض افواج نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور مجاہدین پر فضائی حملہ کیا تو مجاہدین بھی جوابی وار کر سکتے ہیں، جس کی ذمہ داری قابض افواج پر عائد ہوگی۔ 26 مارچ کو امریکی صدر کے غیر ذمہ دارانہ اور مبہم ریمارکس کے جواب میں امارت اسلامیہ نے ایک بار پھر متنبہ کیا کہ اگر امریکہ نے دوحہ معاہدے کے مطابق افغانستان سے فوجی انخلا نہیں کیا تو امارت اسلامیہ کے مجاہدین ایک بار پھر قابض افواج پر حملے شروع کریں گے۔ امریکی حکام نے افغانستان سے قابض افواج کے انخلا کے بارے میں متعدد بار متضاد بیانات دیئے، فوجی انخلا سے متعلق امریکا نے اپنی پوزیشن واضح نہیں کی ہے۔
توہین آمیز خط:
7 مارچ کو میڈیا نے ایک خط شائع کیا جس میں سخت زبان اور توہین آمیز الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ مذکورہ خط نئے امریکی وزیر خارجہ نے اشرف غنی کو بھیجا تھا جس میں انہیں احکامات دینے کے علاوہ انتباہ بھی دیا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور فوجی انخلا پر غور کررہا ہے، اشرف غنی کو چاہئے کہ وہ افغان تنازع فوجی طور حل اور امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں، اشرف غنی کی حکومت نے خط قبول کرلیا، اگرچہ انہوں نے بظاہر خط کی مخالفت کی تاہم انہوں نے کھل کر اپنے آقاؤں سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ اس قدر انہیں حقیر کیوں سمجھا گیا؟