ترجمان کی گفتگو

ترتیب وترجمہ: سیدعبدالرزاق امریکا نے ملک پر جب جارحیت کی اور ہمارے خلاف مسلح لڑائی شروع کی تو اس کے ساتھ تبلیغاتی جنگ اور پروپیگنڈا بھی شروع کیاـ کوشش یہ کی کہ ہماری تصوریر بہت ہی غلط انداز میں پیش کرے اور قوم کو ہم سے متنفر کردےـ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم قوم […]

ترتیب وترجمہ: سیدعبدالرزاق

امریکا نے ملک پر جب جارحیت کی اور ہمارے خلاف مسلح لڑائی شروع کی تو اس کے ساتھ تبلیغاتی جنگ اور پروپیگنڈا بھی شروع کیاـ کوشش یہ کی کہ ہماری تصوریر بہت ہی غلط انداز میں پیش کرے اور قوم کو ہم سے متنفر کردےـ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم قوم کے حقیقی اور اصیل فرزندان ہیں اور قوم کو بھی اس کا احساس ہے اسی لئے وہ ہمارے شانہ بشانہ رہی ہےـ اگر کوئی افغان دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوا بھی ہے تو ہماری طرف سے اسے اطمینان ہونا چاہیے اور دشمن کے پروپیگنڈے پر توجہ نہیں دینی چاہیےـ ہماری تو آج بھی پالیسی یہ چل رہی ہے کہ جو لوگ کل تک ہم سے برسرِ پیکار تھے اور ہمارے خلاف امریکا کے کان اور آنکھ بن گئے تھے ان کے ساتھ بھی مفاہمت کی کوشش کررہے ہیں تو عام لوگوں کو ہمارے آنے کی وجہ سے تشویش کیوں ہوگی؟

دوحا معاہدہ ایک اہم بنیاد اور اصول ہے ـ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پر من وعن عمل کیا جاتا ـ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امریکا نے جزوی طور پر پہلے بھی خلاف ورزی کی اور مسلسل کرتا رہاـ اور اب بنیادی شق یعنی افواج کے انخلاء پر بھی وہ لیت ولعل سے کام لے رہا ہےـ یہ چیز خود امریکا اور استعماری عمل میں اس کے ساتھ تمام شرکاء کے قول وفعل میں تضاد کو ظاہر کرتی ہے اور اس طرح کرنے سے ان کے کئے گئے وعدوں پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہےـ جس کے بعد کسی بھی بات کا یقین نہیں کیاجاسکتاـ اور ایسی بداعتمادی کی صورت میں ہمیں پھر عسکری حل کی طرف جانا ہوگا اور سنگین ترین لڑائی پیش آئے گی جس کی ذمہ داری خلاف ورزی کرنے والوں پر ہوگی ـ البتہ اگر ہمیں یقین ہوجائے کہ جانب مقابل یقینی طور پر انخلاء کاعمل کرے گا تب ہم اپنے رویہ میں لچک دکھانے کو تیار ہیں ـ کیونکہ انخلاء سے ہی سارا مسئلہ حل ہوتا ہےـ

ترک میں منعقد ہونے والی کانفرنس سے متعلق ہمارا موقف آج بھی برقرار ہےـ کہ دنیا بھر میں کہیں بھی افغانستان کے مستقبل سے متعلق اگر کوئی کانفرنس منعقد ہوتی ہے اور اس میں افغانستان کے بارے میں فیصلے ہوتے ہیں اور عین اس وقت کہ ملک اب بھی جارحیت کی زد میں ہے اور بیرونی قوتیں یہاں موجود ہیں ہم کبھی اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گےـ جو لوگ ہم پر شرکت کے لئے دباو ڈال رہے ہیں ان کے پیشِ نظر اپنے مفادات ہیں لیکن ہم اپنے فیصلوں میں خودمختار ہیں اور فیصلہ وہی کریں گے جس سے ملک کی بہبود متعلق ہوـ

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے امریکا اور اس کے متحدین کو شکست دی ہیں اور زبردست شکست دی ہیں ـ لیکن اس کے باوجود ہم نہیں چاہتے کہ آئندہ آنے والا نظام ہم پر ہی منحصر ہوـ ہم چاہتے ہیں ایک ایسا اسلامی نظام قائم ہوجائے جو ہر افغان کی امیدوں اور تمناؤوں کا آئینہ ہو اور اس میں ہرافغان کو اپنا آپ نظر آئےـ اب یہ بات کہ اس نظام میں مرکزیت کس کی ہوگی؟ اس بات کو بین الافغان مذاکرات میں اٹھایا جائے گا اور ان شاءاللہ وہیں پر اس کا حل بھی نکالا جائے گاـ

ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی نظام ہو اور اسلامی طریقہ سے ہوـ ظاہر ہے کہ اسلام کے اندر حکومت بنانے اور نظام تشکیل دینے کے لئے شورائی طریقے موجود ہیں جن کے ذریعہ سے افرادِ کار کا انتخاب ہوتا ہےـ وہ طریقے ہمیں منظور ہیں ـ انہیں پر ہمیں یقین ہیں اور ان ہی کے ذریعے ہم نظام بنانا چاہتے ہیں ـ اس کے برعکس کابل انتظامیہ جن انتخابات کی دہائی دے رہی ہے وہ اس قوم اور ملت کو قابلِ قبول نہیں ہیں ـ جتنی دفعہ یہاں انتخابات کا ڈھونگ رچایا گیا ہے آخر کار فیصلہ نتائج پر نہیں بلکہ امریکی وزیر کے حکم پر ہوا ہے جس کا نتیجہ تقسیم مملکت وحکومت اور سودے بازی کے علاوہ کچھ نہیں نکلا ہےـ پھر ان انتخابات کا صاف مطلب جھوٹ، دھوکہ اور فریب ہی ہیں ـ ابھی حالیہ انتخابات میں قوم سے کیا کیا وعدے ہوئے لیکن اب تک کوئی ایک پورا نہیں ہوا ہےـ اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی مجاہد قوم کو دھوکہ اور فریب کی نذر کردے اور ملک کو ایک بحرانی راستہ پر گامزن کردےـ ملک کو جنگ اور بحران سے نکالنے کا واحد راستہ اسلامی ہی ہوسکتا ہے اور کچھ نہیں ـ انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے یہ کہنا بالکل بے جا ہے کہ عالمی برادری کی نگرانی میں ہونگےـ کیونکہ ہم نے ابھی حال ہی میں امریکا کو دیکھا کہ وہاں بھی شفافیت نہیں رہی ـ تو ہم کیسے اعتماد کرسکتے ہیں کہ کوئی میکانزم اس عمل کو شفاف بھی بناسکتا ہےـ

کوئی بھی ملک اگر یہ کہتا ہے کہ افغانستان میں فلاں نظام منظور ہے اور فلاں نہیں تو ہم اس کو مداخلت سمجھتے ہیں اور سختی سے مذمت کرتے ہیں ـ جس طرح ہم دوسروں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے اور نہیں کہتے کہ فلاں ملک میں دھاندلی زدہ انتخابات منظور نہیں ہیں اسی طرح ان کو بھی اسی طرح سنجیدہ رویہ اپنانا چاہیے اور ہمارے جہاد سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ یہ ہم نے آزادی کے لئے کیا ہےـ بیرونی ممالک کا ایک ہی حق ہے ہم پر کہ ہمارے ملک سے ان کے لئے کوئی خطرہ درپیش نہ ہو اس کی ہم انہیں ضمانت دیتے ہیں ـ باقی نظام کی تشکیل افغانوں کا حق ہے اور افغان ہی اسے طے کریں گے ـکسی بھی بیرونی ملک کو یہ حق حاصل نہیں ہےـ

کابل انتظامیہ کے غلام اہلکار ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں ـ ابھی حال ہی میں ایک فرد نے کہا ہے کہ” طالبان نے ملک کو تباہ کرکے اب امریکا کے ساتھ القاعدہ سے تعلقات ختم کرنے کا معاہدہ کیا ہے ـ اگر بیس سال پہلے ایسا کرتے تو یہ تباہی نہ ہوتےـ” میں ایک یاددہانی ضرور کرانا چاہتا ہوں کہ امریکا کے ساتھ معاہدہ میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوا کہ ہم فلاں سے تعلق رکھیں گے اور فلاں سے نہیں ـ البتہ یہ لکھا ہے کہ ہم کسی کو اجازت نہیں دینگے کہ وہ افغان سرزمین کو امریکا اور اس کے متحدین کے خلاف استعمال کرےـ اور یہی بات بیس سال پہلے بھی اپنے عرب مہاجر بھائیوں کو بتائی تھی ـ اور امریکا کو بھی اس وقت مذاکرات کی دعوت دی تھی کہ اگر کوئی شبہ ہے تو ثبوت لائیے اور پیش کیجیے! لیکن امریکا طاقت کے نشہ میں چور ہوکر اسامہ کے بندھے ہاتھ حوالہ کرنے پر بضد تھا جو ہم نے ٹھکرادیا اور آج بھی اس طرح طاقت کے زور کو مسترد کرتے ہیں ـ آئندہ بھی مسترد کرتے رہیں گےـ