ترجمان کی تازہ گفتگو

ترتیب وترجمہ:سیدافغان رواں دنوں بین الافغان مذاکرات ٹھپ ہیں ـ میڈیا اور دیگر ذرائع سے امارتِ اسلامیہ کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں ـ امارتِ اسلامیہ کا موقف اپنے تئیں پیش کیا جارہا ہےـ اصل صورتحال کے لئے امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب سے وائس آف شریعت ریڈیو […]

ترتیب وترجمہ:سیدافغان
رواں دنوں بین الافغان مذاکرات ٹھپ ہیں ـ میڈیا اور دیگر ذرائع سے امارتِ اسلامیہ کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگائے جارہے ہیں ـ امارتِ اسلامیہ کا موقف اپنے تئیں پیش کیا جارہا ہےـ اصل صورتحال کے لئے امارتِ اسلامیہ کے ترجمان جناب ذبیح اللہ مجاہد صاحب سے وائس آف شریعت ریڈیو نے ایک انٹرویو کیا ہے جس میں سب باتوں کی تفصیل آگئی ہےـ اہمیت کے پیش نظر چند نکات پیش خدمت ہیں:

امارتِ اسلامیہ جنگ بندی اور امن کے قیام کا سب سے زیادہ خواہش رکھتی ہے اور اسی حقیقی امن کے لئے اس کی جدوجہد جاری ہےـ مگر عارضی اور جزوقتی جنگ بندی مسئلہ کا حل نہیں ہےـ اتنی بات تو یقینی ہے کہ رواں جنگ ایک بنیاد پر چل رہی ہےـ اس کے اسباب اور عوامل ہیں ـ جب تک وہ عوامل ختم نہیں ہوتے اس وقت تک جنگ ختم نہیں ہوسکتی ـ اس لئے امارتِ اسلامیہ کی کوشش یہ ہے کہ ان عوامل کا خاتمہ کرےـ چنانچہ امارتِ اسلامیہ نے دو بڑے مقاصد پیشِ نظر رکھ یہ مقدس جہاد شروع کیا تھاـ ایک یہ کہ تمام بیرونی قوتوں کا انخلاء ہوجائے اور ہمارا ملک مستقل اور آزاد ہوجائےـ اور اس مقصد کے حصول میں امارتِ اسلامیہ کی جدوجہد کامیاب ہوئی ہے اور قریب ہے کہ سب بیرونی قوتوں کا انخلاء ہوجائےـ
دوسرا مقصد یہ تھا کہ آزادی کے ساتھ افغان قوم کی امنگوں اور قربانیوں کے مطابق ایک سچا اور حقیقی اسلامی نظام قائم ہوجائےـ یہ مقصد اس وقت کابل انتظامیہ کی غیرسنجیدگی اور متعصبانہ رویہ کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے اور کابل انتظامیہ مسلسل رکاوٹ بن رہی ہے ـ جس کی وجہ سے ہم جہاد پر مجبور ہیں ـ اگر آج ہمیں اطمینان ہوجائے کہ یہ مقصد جنگ اور جہاد کے بغیر حاصل ہوجائے گا تو ہم مکمل جنگ بندی کے لئے تیار ہیں ـ لیکن اس وقت جو رویہ جانب مقابل کا ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ جنگ بندی کا وقت ابھی نہیں آیاـ

جن افغانوں سے ہم برسرِ پیکار ہیں ان کی یہ تعبیر کرنا کہ طالبان افغانوں سے برسرِ پیکار ہیں بالکل غلط ہیں ـ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے بیس سال مسلسل استعمار کا دفاع کیا ہےـ جنھوں نے بیرونی آقاؤوں کی خوشنودی کے لئے اپنی قوم کو داو پر لگایاـ جنھوں نے اپنی قوم کے مردوں، بچوں اور خواتین کا خون کیاـ اور یہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی کہتے ہیں کہ ہم واشنٹن اور نیویارک کے محافظ ہیں ـ یہ تو ملک وقوم کے غدار ہیں ـ انہیں تو کسی حال نہیں بخشبا چاہیے اور ہم نے جو ان سے مذاکرات شروع کئے ہیں وہ بھی ہماری طرف سے احسان ہےـ ورنہ تو یہ لوگ اپنے کئے کی وجہ سے کسی بھی طرح قابلِ معافی نہیں ہیں ـ ایسے کردار کے حاملین کو ہرقوم اور ہر ملک میں غدار ہی کی نگاہ سے دیکھا اور سمجھا جاتا ہےـ

یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بین الافغان مذاکرات کی تاخیر میں کابل انتظامیہ ہی اصل کردار ہےـ شروع دن سے جب دوحا معاہدہ میں یہ طے ہوا کہ دس دنوں میں بین الافغان مذاکرات شروع ہونگے تو کابل انتظامیہ نے دس دنوں کی کارروائی کو چھ ماہ تک مؤخر کردیاـ پھر جب خدا خدا کرکے مذاکرات شروع ہوئے تو کابل انتظامیہ نے اپنی ٹیم کو ہدایت جاری کردی تھی کہ مذاکرات میں کردار ادا کرنے کے بجائے وقت ضائع کیا جائےـ اور اس بات پہ زور ہونا چاہیے کہ کسی طرح دوحا معاہدہ ختم ہوجائےـ یاپھر ٹرمپ کے بجائے جوبائڈن کامیاب ہوجائےـ آج بھی کابل انتظامیہ جو ترکی کانفرنس یا دیگر چیزوں پہ زیادہ زور دے رہی ہے وہ دوحا معاہدہ سے انحراف ہی ہےـ

امارتِ اسلامیہ کی یہ کوشش ہے کہ امن قائم ہوجائےـ اور کسی بھی بیرونی قوت اور مملکت کو مداخلت کا کوئی بہانہ باقی نہ رہےـ البتہ یہ بھی ضروری ہے کہ یکطرفہ کوشش سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا جب تک جانبِ مقابل بھی سنجیدگی نہ دکھائےـ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کچھ بیرونی ممالک مداخلت کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ـ لیکن افغان قوم کا فیصلہ ان کی کوششوں کے خلاف ہےـ آپ نے دیکھا ہوگا کہ طالبان نے اپنے دورِ حکومت میں مخالفین کو باوجودیکہ بیرونی ممالک ان کی پشت پناہی کررہے تھے صرف پانچ فیصد علاقہ تک محصور کررکھا تھاـ پھر اب جبکہ ان کے مخالفین کا وہ چہرہ دنیا کے سامنے آچکا ہے جس سے ان کی غلامی اور ملک دشمنی آشکار ہوچکی ہے تو بیرونی حمایت انہیں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں دے سکتاـ

امارتِ اسلامیہ چاہتی ہے کہ ایک ایسی حکومت قائم ہو جو ہمہ شمول ہوـ اس میں ڈاکٹر،انجینئر اور ہر شعبہ زندگی سے متعلق لوگوں کی جگہ ہوـ البتہ اس وقت جو ہمارے ہاں علماء اور طلبہ کی اکثریت ہے اس کی وجہ یہ ہے عملی طور پر جہادی کارروائیوں اور جہاد میں پیش آنے والی مشکلات اور تکالیف کے لئے انہوں نے ہی اپنے آپ کو پیش کیا تھاـ ظاہر ہے جہاد کے اندر شہادت آتی ہےـ جیل آتی ہےـ مصائب آتے ہیں ـ اور ان کے لئے کسی کو زبردستی تو تیار نہیں کیا جاسکتاـ یہ تو اپنی قربانی سے ہی ممکن ہےـ اس لئے کثرت بھی انہیں کا ہےـ مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم انحصار چاہتے ہیں ـ ہم نے ہمیشہ یہ کہا ہے اور یہ ہمارا موقف ہے کہ ہر افغان کو قوم وملک کی فلاح وبہبود کے لئے تیار رہے اور کردار ادا کرےـ

بعض مفاد پرست اور خود غرض لوگ امارتِ اسلامیہ کو ایک خاص قوم اور خاص زبان سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور باور یہ کراتے ہیں کہ امارتِ اسلامیہ کی کامیابی صرف اس قوم کی کامیابی ہوگی افغانستان کی نہیں ـ یہ سراسر پروپیگنڈا ہے امارتِ اسلامیہ کی بنیاد ہی اسلام اور تعصبات کے خاتمہ پر رکھی گئی ہےـ اور امارتِ اسلامیہ نے عمل کے میدان میں کردکھایا بھی ہےـ پھر یہ بالکل جھوٹ بھی ہے کہ امارتِ اسلامیہ صرف ایک زبان والے لوگوں سے تشکیل شدہ ہےـ ہماری سب سے زیادہ طاقتور اور سپریم کونسل(رہبری شوری) تک میں ہر زبان اور ہر علاقہ کے لوگ موجود ہیں ـ قندہار سے بدخشان تک کے پورے افغانستان کے لوگ ہمارے ساتھ ہیں ـ ہر جگہ ہمارے مجاہدین موجود ہیں ـ

ہمیں تعلیم اور تعمیر کی ضرورت کا احساس ہی نہیں شدید احساس ہےـ مگر چونکہ ایک تو ہم جنگ میں مصروف ہیں ـ دوسری جانب ان دونوں شعبوں کے کئے بیش بہا بجٹ درکار ہے جو ہمارے پاس نہیں ہےـ کیونکہ جہاں جہاں سے بجٹ آنا ممکن ہے ان ساری جگہوں پر کابل انتظامیہ قابض ہےـ اور ہم صرف اس حد تک بجٹ تیار کرسکتے ہیں جس سے جنگ جاری رکھ سکےـ البتہ پھر بھی ہم نے اپنی بساط کی حد تک بھرپور کوشش کی ہےـ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کے لئے باقاعدہ کمیشن بنایا ہےـ مستقل طور پر کوگ مقرر کئے ہیں جو ملک کے طول وعرض میں اس وقت بھی کام کررہے ہیں ـ ابھی گزشتہ دنوں اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے ساتھ ہمارے زیرِ تسلط علاقوں میں چارہزار اسکول بنانے پر اتفاق کیا ہےـ اسی طرح سے تعمیری منصوبوں پر بھی کام جاری ہےـ مگر یہ سب کچھ مکمل طور پر اس وقت ممکن ہے جب نظام قائم ہوجائےـ

میڈیا کا کردار بڑا اہم ہوتا ہےـ میڈیا ہی قوم کے مفادات کو تحفظ دے سکتا ہےـ میڈیا ہی قوم کی آواز دوسروں تک پہنچا سکتا ہےـ مگر اس وقت جو میڈیا ملک میں موجود ہے اس کے فوائد کے ساتھ نقصانات بھی ہیں ـ یعنی یہ میڈیا کسی ملی اور دینی روح سے سرشاری کے بجائے استعمار کے زیرسایہ پروان چڑھا ہےـ جس کی وجہ سے استعمار کے زہریلے اثرات اس کے وجود میں پیوند ہوچکے ہیں ـ اس لئے اس کی اصلاح کی ضرورت موجود ہےـ مثلا یہ تو ضروری ہے کہ میڈیا آزاد ہوـ مگر آزادی کے نام پر توہین،تعصبات ابھارنا اور دینی اور قومی اقدار پر حملہ آور ہونے کا کوئی جواز نہیں ہےـ اور یہ سب کچھ ہورہا ہے جس کی اصلاح کرنی چاہیےـ