بدعنوان انتظامیہ کےلیے اب کوئی قربانی نہیں دیتی

ہفتہ وار تبصرہ حالیہ دنوں میں دیکھا جارہا ہے کہ کابل انتظامیہ سے منسلک ملازمین خاص طور پر پولیس اور فوجیوں کی بڑی تعداد امارت اسلامیہ میں شامل ہورہی ہے ، اپنی مراکز، کیمپ ، بٹالین ،تمام جنگی وسائل اور اسلحہ وغیرہ مجاہدین کے حوالے کررہا ہے۔ کابل انتظامیہ کی یہ اجتماعی تبدیلی کوئی اتفاق […]

ہفتہ وار تبصرہ
حالیہ دنوں میں دیکھا جارہا ہے کہ کابل انتظامیہ سے منسلک ملازمین خاص طور پر پولیس اور فوجیوں کی بڑی تعداد امارت اسلامیہ میں شامل ہورہی ہے ، اپنی مراکز، کیمپ ، بٹالین ،تمام جنگی وسائل اور اسلحہ وغیرہ مجاہدین کے حوالے کررہا ہے۔ کابل انتظامیہ کی یہ اجتماعی تبدیلی کوئی اتفاق اور معمولی واقعہ نہیں ہے، بلکہ اس بات کی نشانی ہے کہ کابل انتظامیہ سے وابستہ فوجی بھی اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اشرف غنی کا رو بہ زوال انتظامیہ دفاع اور قربانی کے لائق نہیں ہے،لہذا بہتر یہی ہے کہ اس سے اپنی راہ کو الگ کیا جائے۔
درحقیقت اگر کوئی فوجی یا جنگجو اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے، وہ اقدار کے لیے ہوتا ہے۔ کوئی بھی مفت میں اپنی زندگی قربان نہیں کرتا۔ کابل انتظامیہ کا کوئی داعیہ اور واضح ہدف ہے اور نہ ہی کسی ایسے اقدار کا پابند ہے، جو قربانی کا لائق ہو، بلکہ بیرونی جارحیت کے نتیجے میں مسلط کی گئی ہے اور افغانستان میں استعمار کے اہداف کے حصول کا ایک وسیلہ ہے۔ اسی لیے اب تمام افغانوں اور حتی کہ اس کی فوجیوں نے بھی حمایت سے منہ موڑ دیا ، جوق در جوق اس کی صفوف کو چھوڑ کر امارت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کررہا ہے۔
کابل انتظامیہ کے حکام اور ایوان صدر کےحکمران طبقہ کو جان لینا چاہیے کہ اب عوام کو دھوکہ دینے کی خاطر جھوٹے نعروں اور وعدوں کا وقت گزر چکا ہے ،تاکہ انہیں مادی مفادات کے بدلے اپنے ناجائز اہداف کےحصول کی خاطر لڑاؤ۔ حالیہ دنوں کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اب کسی کو اس بدعنوان انتظامیہ پر اعتماد ہے اور نہ ہی اس کے دفاع اور بقاء کے لڑ رہا ہے۔ ہتھیار ڈالنے والے فوجوں کی یہ آگاہی اس لیے قابل ستائش ہے کہ اس طریقے سے جنگ طول پکڑنے کو روکتا ہے، قدم قدم پر امن لاتا ہے اور افغان قوم اپنے 20 سالہ جہادی اہداف کے قریب تر ہورہی ہے۔
لازم ہے کہ وہ بیرونی جماعتیں بھی اس صورتحال کا بغور مطالعہ کریں، جو تاحال افغانستان میں اپنے کٹھ پتلیوں کے بل بوتے پر جنگ کو طول دینے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ افغانوں کو جیسے بیرونی غاصبوں سے نفرت ہے، ویسے ہی ان کی جانب سے مسلط کردہ انتظامیہ کو بھی تسلیم نہیں کرتا، اسی لیے مسلسل طور پر امارت اسلامیہ میں شمولیت کا اعلان کررہا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایوان صدر کے حکام اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مختلف دلائل بیان کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہماری قوم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ افغانستان میں کٹھ پتلی انتظامیہ کی جگہ خودمختار اسلامی نظام قائم ہوجائے، ایسی حکومت جو ہماری ملت کے مذہبی اور قومی امنگوں کا ترجمان اور ہمارے جہاد کے اہداف کا محافظ ہو۔
امارت اسلامیہ حالیہ تحولات کو ملک اور عوام کے لیے ایک بہتر آغاز سمجھتی ہے اور عوام کو تسلی دیتی ہے کہ ان شاءاللہ وہ دن قریب تر ہے کہ افغانستان میں ایک خودمختار اسلامی نظام حاکم اور ملک گیر امن کا ماحول فروغ پائےگا۔ امید ہے کہ اس ہدف تک پہنچنے کے لیے تمام افغان متحد ہوکر ہر شخص اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا کریں ۔
اسی امید سے