افغانستان میں خانہ جنگی کا تصور بے بنیاد ہے

ہفتہ وار تبصرہ تقریبا کئی ماہ تک اکثر غیرملکی میڈیا اور تجزیہ نگار حضرات یہ بات کرتے آرہے ہیں کہ افغانستان میں بیرونی غاصبوں کے انخلا کے بعد بھی جنگ کئی سالوں تک جاری رہیگی اور آخرکار ایک خانہ جنگی ، خطے اور دنیا کے ممالک کے لیے پراکسی وار میں بدل جائیگی۔ تجزیہ نگار […]

ہفتہ وار تبصرہ
تقریبا کئی ماہ تک اکثر غیرملکی میڈیا اور تجزیہ نگار حضرات یہ بات کرتے آرہے ہیں کہ افغانستان میں بیرونی غاصبوں کے انخلا کے بعد بھی جنگ کئی سالوں تک جاری رہیگی اور آخرکار ایک خانہ جنگی ، خطے اور دنیا کے ممالک کے لیے پراکسی وار میں بدل جائیگی۔ تجزیہ نگار اس سوچ میں تھے کہ خدانخواستہ افغان قوم کی سیاسی شعور اتنی پست ہوگی کہ اپنے مشترکات کی بجائے ان نفرتوں کا سہارا لے گا، جن کی تلقین بیرونی خودغرض عناصر کی جانب سے کیا جائےگا اور یا استعمار کے اس پروپیگنڈے کے زیراثر آئےگا ،جسے استعمار نے گذشتہ 20 سالہ دور میں عوام کو تقسیم کرنے، قومی، علاقائی اور لسانی نفرتوں کو ابھانے کے لیے انجام دیا ہے اور اس راہ میں سالہا تک منظم طور پر کام اور سرمایہ کاری کی ہے۔
مگر حالیہ چند ہفتوں میں ہم نے مشاہدہ کیا کہ افغان تنازعہ کے دو اہم فریق امارت اسلامیہ کے مجاہدین اور کابل انتظامیہ کی فوجیں ہیں۔ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں۔ ہم روزانہ مشاہدہ کررہے ہیں کہ استعمار کی جانب سے تربیت یافتہ فوجی جوق درجوق امارت اسلامیہ کے مجاہدین سے مل کر ان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں، استعمار اور اس کے کٹھ پتلیوں سے برائت کا اعلان کررہا ہے اور امارت اسلامیہ کی جانب سے ان کا شاندار استقبال کیا جارہا ہے۔
افغانستان کے دشمن سوچ رہے تھے کہ چونکہ انہوں نے ان فوجیوں پر 20 سال اخراجات کیے، انہیں اپنے استعماری مفادات کے تحفظ کےلیے تربیت دی، لہذا اب استعمار ملک سے انخلا کررہا ہے، تو ان کی تربیت یافتہ فوجیں ان کی پراکسی وار کو جاری رکھے گی۔
مگر عملی طور پر دیکھا گیا کہ ان کا اندازہ غلط تھا ،کابل انتظامیہ کی صفوف میں موجود متعدد فوجیوں نے جنگ جاری رکھنے کی بجائے ملک اور قوم کے بہترین مستقبل کی خاطر امن اور وابستگی کے طریقے کو اپنا لیا۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران 120 سے زائد اضلاع کے مراکز اور فوج نے سینکڑوں کیمپ، بیس وغیرہ تمام جنگی وسائل، ہلکے و بھاری ہتھیاروں وغیرہ کے ہمراہ امارت اسلامیہ کے مجاہدین کے حوالے کردیا۔ اور جنگ جاری رکھنے کی بجائے ان تمام علاقوں میں پائیدار امن برقرار رکھنے میں تعاون کیا۔
افغانستان کے دشمن اور ہمارے ملک میں جنگ جاری رکھنے کے خواب دیکھنے والوں کو ان حالات کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے، انہیں فوجیوں کی وابستگی اور سرنڈر ہونے والی ویڈیوز کا گہرا مشاہدہ کرنا چاہیے، کہ یہی لمحات کس حد تک قدرتی اور خوشحال، اخلاص اور بھائی چارے کے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں۔ اس سے انہیں معلوم ہوجائےگا کہ افغان قوم تقسیم نہیں ہوئی ہے،یہاں تک کہ اس کے مختلف طبقات کو کوئی اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں۔ افغان قوم متحد ہے، جارحیت کے خاتمہ کے بعد کسی کا ارادہ نہیں ہے کہ استعمار کے مفادات کے لیے مزید لڑیں۔
اسی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جارحیت کے خاتمہ کے بعد افغانستان کو پراکسی وار کے میدان میں بدلنے اور یا خانہ جنگی جنم لینے والی سوچ وہ خام تصور ہے، جو موجودہ حقائق سے مشابہہ نہیں ہے۔ جیسا کہ افغانستان ناقابل تقسیم ملک ہے اور تاریخ کے بہت سے کٹھن مراحل سے سالم نکلا ہے، ویساہی افغان قوم بھی مشترکہ اقدار کی رسی سے جوڑا ہوئی ہے،جس کے درمیان کوئی بھی جدائی نہیں لا سکتی۔ لہذا تمام ملکی اور غیرملکی فریق افغانستان میں جنگ جاری رکھنے کی سوچ میں رہنے کی بجائے انہیں پرامن اور متحد افغانستان کو ایک ضروری حقیقت اور واقعیت کے طور پر ماننا چاہیے۔