قانون کے نام پر اظہار رائے کی آزادی کو دبانا

آج کی بات کابل انتظامیہ کے چیف جسٹس ذبیح اللہ کلیم نے گزشتہ روز میڈیا کو ایک دھمکی آمیز خطاب میں کہا: “بر اساس قوانین افغانستان، نشر اکاذیب، شایعات، توطئه، اخبار غیر واقعی و جانب‌دارانه که به تمامیت ارضی، حاکمیت ملی دولت و منافع جمعی آسیب بزند، جرم پنداشته شده و با مرتکبان آن، برخورد […]

آج کی بات
کابل انتظامیہ کے چیف جسٹس ذبیح اللہ کلیم نے گزشتہ روز میڈیا کو ایک دھمکی آمیز خطاب میں کہا: “بر اساس قوانین افغانستان، نشر اکاذیب، شایعات، توطئه، اخبار غیر واقعی و جانب‌دارانه که به تمامیت ارضی، حاکمیت ملی دولت و منافع جمعی آسیب بزند، جرم پنداشته شده و با مرتکبان آن، برخورد قانونی خواهد شد”۔
افغانستان کے قوانین کے مطابق جھوٹی خبروں ، افواہوں ، سازشوں ، غیر حقیقی اور متعصبانہ خبروں کی اشاعت جو ملکی سالمیت، ریاست کی قومی خودمختاری اور عوام کے اجتماعی مفادات کے لئے نقصان دہ ہو، جرم تصور کیا جائے گا اور مجرمین کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
ان کے علاوہ اٹارنی جنرل، حج و اوقاف اور محکمہ اطلاعات کے وزراء نے بھی ملک کے ذرائع ابلاغ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو قانون کے مطابق جاری رکھیں اور خلاف ورزی سے بچنے کی کوشش کریں۔
مذکورہ حکام نے بطور مثال کہا کہ قانون کی خلاف ورزی یہ ہوگی کہ کسی ضلع یا فوجی اڈے پر طالبان کے کنٹرول کی خبر اس وقت تک شائع نہ کی جائے جب تک حکومت کے سرکاری ترجمانوں کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی جاتی ہے، اگر میڈیا نے یہ خبر شائع کی تو یہ قانون کی خلاف ورزی ہوگی اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔
انہوں نے میڈیا کو یہ ہدایت کی کہ وہ سیکیورٹی فورسز کے مارے جانے والے اہل کاروں کے لئے بطور اعزاز اور انہیں حوصلہ دینے کے لئے “شہید” کا لفظ استعمال کرے۔
کابل انتظامیہ کے عدالتی ، مذہبی اور نشریاتی حکام کے غیر قانونی اقدامات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ فرسودہ نظام کے واحد اعزاز (آزادی اظہار رائے) جو ہر وقت اس پر فخر کرتے تھے، اس کو بھی پاوں تلے روند دیا ہے اور اب اس پر بے جا پابندیاں عائد کررہے ہیں، انہوں نے اپنے آئین کے آرٹیکل 34 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا کے خلاف دھمکی آمیز احکامات جاری کیے۔
آزادی اظہار رائے کو لاحق خطرے کے بارے میں سب سے حیران کن خبر یہ ہے کہ کابل انتظامیہ کے سکیورٹی عہدیداروں نے ایک آزاد اور معروف ٹی وی چینل (شمشاد) کو متنبہ کیا ہے کہ امارت اسلامیہ کے دعوت و ارشاد کمیشن کے سربراہ مولوی امیر خان متقی کے ساتھ جو انٹرویو اس نے کیا تھا اور اس کی اشاعت کا اعلان بھی کیا تھا، اس کو روک دیا، اور قومی سلامی کے رہنماوں نے اس انٹرویو کی اشاعت کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
کابل انتظامیہ کے اعلی حکام واضح طور پر بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور میدان جنگ میں طالبان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں، اب وہ قانون کی آڑ میں میڈیا کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے تحت اپنی شکست کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس لئے وہ آزاد میڈیا کو اپنے جھوٹے ترجمانوں کی طرح جھوٹ بولنے پر مجبور کررہے ہیں اور جس طرح وہ اضلاع میں شکست پر خاموش ہیں، میڈیا کو بھی اسی طرح خاموش کرنے پر زور دے رہے ہیں۔
لیکن آزاد میڈیا کے بہادر عملے کو چاہئے کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ مشن کے تحت کابل انتظامیہ کے غیر قانونی احکامات کو قبول نہ کرے اور حقائق کی بنیاد پر ملکی واقعات اور صورتحال کو شائع کرے۔
جب میڈیا اپنا بنیادی مشن پورہ کرے گا تو ملک کے اعلی مفادات کے لئے وہ پرعزم رہے گا۔