امارت اسلامیہ بات چیت اور افہام و تفہیم کے لیے پرعزم ہے

ہفتہ وار تبصرہ اگر ایک طرف ملک بھر میں امارت اسلامیہ سے مخالف فوجیوں کی وابستگی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے، 150 اضلاع سے زائد پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ اسی طرح دشمن کے متعدد فوجی مراکز تمام وسائل،اسلحہ وغیرہ سمیت مجاہدین کے ہاتھ لگے ہیں،جس […]

ہفتہ وار تبصرہ
اگر ایک طرف ملک بھر میں امارت اسلامیہ سے مخالف فوجیوں کی وابستگی کے سلسلے میں تیزی آئی ہے، 150 اضلاع سے زائد پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے مکمل طور پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ اسی طرح دشمن کے متعدد فوجی مراکز تمام وسائل،اسلحہ وغیرہ سمیت مجاہدین کے ہاتھ لگے ہیں،جس سے امارت اسلامیہ کی فوجی برتری اور قوت میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور مجاہدین کے ماتحت علاقوں میں بہت وسعت آئی ہے، مگر ان تبدیلیوں اور کامیابیوں کے باوجود امارت اسلامیہ ا ب تک گفتگو اور افہام و تفہیم کے عمل کو پرعزم ہے اور اسے بہتر سمجھتی ہے کہ افغان تنازعہ بات چیت کے ذریعے حل ہوجائے۔
اسی سلسلے میں گذشتہ ہفتہ امارت اسلامیہ کے نمائندوں نے جمہوری اسلامی ایران کے صدر مقام تہران شہر کا سرکاری دورہ کیا اور وہاں ایران حکام کے علاوہ کابل سے آنے والے سیاستدانوں کیساتھ مسائل کے پرامن اور سیاسی حل پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ اس اجلاس میں بات چیت کے آغاز پر اصرار ہوا اور مستقبل میں ایک ایسے اجلاس کے انعقاد کا تذکرہ ہوا، جس میں جنگ سے پائیدارامن کی طرف منتقل ہونے والے طریقہ کار اور اسلامی نظام کے قیام کے موضوع پر بات چیت ہوگی۔
اسی وقت امارت اسلامیہ کے ایک اور وفد نے روسی صدر مقام ماسکو کا دورہ کیا، چونکہ ملک کے شمال میں وسیع علاقوں پر امارت اسلامیہ کے مجاہدین نے قبضہ کرلیا ہے ۔ امارت اسلامیہ کےوفد نے روس اور مرکزی ایشیا کے ممالک کو یقین دلایا کہ امارت اسلامیہ کی پیشرفت سے انہیں تشویش نہیں کرنا چاہیے، افغانستان سے کسی بیرونی ملک کو ضرر نہیں پہنچے گا۔ امارت اسلامیہ کےنمائندوں نے پریس کانفرنس کے دوران ایک بار پھر پرامن حل پر اصرار کیا اور کہا کہ آنے والے اسلامی نظام کے حوالےسے افغانانوں کو بات چیت کےذریعے فیصلے تک پہنچنا چاہیے۔
نہرکیف امارت اسلامیہ نے ایک طرف عام معافی اور دعوت کی پرامن پالیسی کو اپنائی ہے، جس کے نتیجے میں بہت سے علاقوں میں جنگ کے اسباب ختم ہوچکے ہیں اور ہلاکتوں کی روک تھام ہوئی ہے، اسی طرح دوسری جانب سیاسی میدان میں بات چیت اور افہام و تفہیم کے لیے پرعزم ہے، اس کے برعکس کابل انتظامیہ کے عہدیدار مسلسل جنگی دھمکیوں اور باہمی مشوروں میں مصروف ہیں۔ عوامی مقامات پر فضائی حملے، جنگی پروپیگنڈے اور غیرجانبدار میڈیا کو دھمکیاں وہ اقدامات ہیں،جنہیں ایوان صدر کے حکام نے حالیہ دنوں میں سرانجام دیے ہیں۔
امارت اسلامیہ افغانستان ان گروہوں میں سے نہیں ہے ، جو فوجی برتری اور قوی تر مؤقف تک پہنچتےہی خدانخواستہ غرور کریں یا اپنے رویہ میں تبدیلی لے آئے۔ امارت اسلامیہ حالیہ فتوحات کے باوجود خود کو ماضی کے مانند بہت پابند سمجھتی ہے اور افغانستان کے تنازعہ میں محور اور ذمہ دار فریق کے طور پر اسے اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے کہ کس طرح ملک اور قوم کو پرامن اور باعزت طور پر موجودہ صورتحال سے نکال دیں اور ایک خودمختار، اسلامی اور پرامن افغانستان کو امنگوں تک پہنچا دیں، اسی لیے بات چیت اور پرامن حل کو ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کی حیثیت سے دیکھ رہا ہے۔