قومی ملیشیا کی تشکیل ناکام تجربوں کا اعادہ ہے

آج کی بات ملک میں امارت اسلامیہ کی حالیہ فوجی پیشرفتوں کے مقابلہ میں کابل انتظامیہ کے سرکاری دفاعی اور سیکیورٹی اداروں کی واضح شکست کے بعد اب اس کے متعدد ناکارہ جنگجوؤں نے عوامی بغاوت کے عنوان کے تحت ملیشیا بنانے کی سازش شروع کی ہے۔ یہ جنگجو جنہوں نے امریکی جارحیت کے آغاز […]

آج کی بات
ملک میں امارت اسلامیہ کی حالیہ فوجی پیشرفتوں کے مقابلہ میں کابل انتظامیہ کے سرکاری دفاعی اور سیکیورٹی اداروں کی واضح شکست کے بعد اب اس کے متعدد ناکارہ جنگجوؤں نے عوامی بغاوت کے عنوان کے تحت ملیشیا بنانے کی سازش شروع کی ہے۔
یہ جنگجو جنہوں نے امریکی جارحیت کے آغاز میں قابض افواج کے لئے فرنٹ لائن میں لڑنے کا کردار ادا کیا تھا اور امارت اسلامیہ کے خلاف استعمال ہوئے، اب ایک بار پھر اپنی کرپٹ حکومت کو برقرار رکھنے کے لئے یہی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
ان جنگجوؤں میں سے ایک عطا نور شمال میں سرگرم عمل ہے اور دوسرا اسماعیل خان ہے جو ہرات میں سرگرم ہے، سابق مجاہدین کے نام کا غلط استعمال کرکے وہ اپنے علاقے میں سادہ لوح لوگوں کو ورغلانا چاہتے ہیں۔
یہ ماضی کے ایکسپائر جنگجو کمانڈر اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ افغانستان کے مسلمان عوام اب جان چکے ہیں اور وہ دین اور وطن کے خلاف آپ کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں۔
وہ جانتے ہیں کہ یہ وہی پرانے چہرے ہیں جنہوں نے جارحیت کے آغاز میں قابض افواج کو مدد فراہم کی اور اپنے لوگوں پر ظلم و ستم کیا اور عوام کے قتل عام میں قابض افواج کا ساتھ دیا۔
جب حملہ آوروں نے افغام مجاہد عوام کی مزاحمت کے نتیجے میں ہزیمت اٹھائی اور شکست کھا کر افغانستان کو چھوڑ رہے ہیں، ایسے وقت میں سابقہ کمانڈروں کو اپنے عوام کے خلاف سازش کرنے اور انہیں ہراساں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
افغان مسلم عوام نے اللہ تعالی کی مدد اور اپنی عظیم قربانیوں کی بدولت اپنے ملک کو غیرملکی قبضے سے آزاد کرایا، اب آپ کی منفی سرگرمیوں اور سازشوں کو ناکام بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
عوامی بغاوت کے نام پر اپنی ملیشیا بنانا ناکام تجربوں کا اعادہ ہے جو آپ یا آپ کے سرپرستوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
آپ کے لئے سب سے بہترین آپشن ہے کہ امارت اسلامیہ کی عام معافی سے فائدہ اٹھائیں اور اپنی قوم کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مثبت انداز میں ملک کی خدمت کریں۔
عوام نے امریکی جارحیت سے پہلے اور اس کے دوران آپ کے اقدامات اور کارنامے دیکھے ہیں، کوئی بھی آپ پر اعتماد نہیں کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ آپ سے ملک کی تقدیر میں مثبت کردار ادا کرنے کی توقع کرسکتا ہے۔