جھوٹ کا پلندا اور وحشتناک کردار

تحریر:سیدافغان 2 اگست کو کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس میں حسبِ عادت طویل بے معنی خطاب کیاـ بڑی بے شرمی سے نہ صرف یہ کہ الزامات لگائے بلکہ ایسی باتیں کہیں کہ کچھ غور وخوض کے بغیر، ہر عام وخاص اس کی حقیقت سمجھتا ہے اور […]

تحریر:سیدافغان
2 اگست کو کابل انتظامیہ کے سربراہ اشرف غنی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس میں حسبِ عادت طویل بے معنی خطاب کیاـ بڑی بے شرمی سے نہ صرف یہ کہ الزامات لگائے بلکہ ایسی باتیں کہیں کہ کچھ غور وخوض کے بغیر، ہر عام وخاص اس کی حقیقت سمجھتا ہے اور اشرف غنی اور اس کی انتظامیہ کے افعال وکردار سے بخوبی اندازہ لگا سکتا ہےـ اشرف غنی نے اس خطاب میں دوبڑے الزام اس انداز سے لگائے گویا وہ بڑا ہی معصوم انسان ہے اور مظلومیت کا پیکر مجسم ہےـ اشرف غنی کا کہنا تھا کہ طالبان تبدیل ضرور ہوئے ہیں مگر ان کی تبدیلی یہ ہے کہ خونخواری میں اضافہ ہوا ہےـ اشرف غنی کی اس بات کو لے کر کچھ بے ضمیر لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا شروع کیاـ البتہ ان بے ضمیر لوگوں کو یہ بات کیوں نظر آتی کہ اشرف غنی کے خطاب کے فورا بعد صوبہ ہلمند کے مرکزی مقام لشکرگاہ میں اسی ہی کے حکم سے عوام پر اندھا دھند بمباری شروع ہوگئی ـ جو رات گئے تک چلتی رہی ـ جس کے نتیجہ میں محض ایک حملہ سے ایک ہی گھرانے کی آٹھ خواتین اور بچیاں شہید ہوگئیں ـ لوگ شدید بمباری کی تاب نہ لاتے ہوئے گھروں سے نکل گئےـ بچوں کی لاشیں سڑکوں پر پڑی رہیں ـ فضاء جہنم کا منظر پیش کررہی تھی ـ زمین تھی کہ گویا انگارہ بنی ہوئی تھی ـ باپردہ معزز خواتین پردہ اور حتی اپنے جگر گوشوں کی فکر سے بے نیاز ہوکر آبلہ پا سمت معلوم کئے بغیر محض جان بچانے کی فکر میں ادھر ادھر بھاگ رہی تھیں ـ ہرطرف بچوں اور خواتین کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں ـ ایک ایک مارکیٹ میں لوگوں کی سینکڑوں دکانیں اس وحشیانہ بمباری سے جل کر خاکستر ہوگئیں ـ اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ اشرف غنی کی انتظامیہ نے بڑے فخر سے پریس ریلیز جاری کردی جس میں بتایا گیا کہ ہم نے اتنے اتنے دہشت گردوں کو مارا ہے اور بمباری ہم ہی نے کی ہےـ انہیں اس بات سے بھی شرم نہیں آرہی تھی کہ سڑکوں پر بچوں کی لاشیں پڑی ہوئی ہیں ـ گھر وبازار ڈھائے گئے ہیں ـ بہت سارے لوگ چھتوں کے گرنے سے شہید اور زخمی ہوگئے ہیں اور ان سب کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہیں اور دنیا بھری پڑی ہے مگر پھر بھی وہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ایسی گھٹیا زبان استعمال کررہی ہےـ
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ جن طالبان کو اشرف غنی خونخوار کہہ رہا ہے اسی خطاب کے دوران طالبان کی حاکمیت میں جینے والے لوگ صوبہ ہرات میں طالبان کی آمد پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں ـ ایک راہ گزرتا آدمی جو فارسی زبان سے تعلق رکھتا ہے ان الفاظ کے ساتھ اپنے اطمینان کا اظہار کرتا ہے”من صد در صد مطمئن استم” کہ سو فیصدی اطمینان ہےـ ایک اور آدمی بڑے طمطراق انداز سے قسمیں کھا کر کہتا ہے کہ “ما قسم میخوریم بایں حکومت ما وملت ما راضی ہستیم” یعنی خدا کی قسم ہماری پوری قوم مجاہدین کی حکومت پر راضی اور خوش ہےـ اور صرف ہرات تک انحصار نہیں کوئی انصاف پسند صحافی ذرا جا کر پورے افغانستان میں طالبان کے زیرسایہ زندگی گزارنے والوں کے پاس ایک چکر لگائے لگ پتہ جائے گا کہ اطمینان کی جو زندگی ہے اس کا اصل مزا وہی لوٹ رہے ہیں ـ اور کابل انتظامیہ جو خونخواری کا راگ الاپ رہی ہے وہ دراصل اپنی خونخواری کو چھپانا چاہتی ہے جو کہ چھپ نہیں رہی ـ
اشرف غنی نے اپنے خطاب میں پر زور انداز میں کہا کہ ہم نے تو اپنے مستقبل کا تعین خود کرلیا ہے اور طالبان کے فیصلے کہیں اور سے طے ہوتے ہیں ـ یہ کہتے ہوئے اسے ذرا برابر بھی حیا دامن گیر نہیں ہوئی ـ اگر تم نے خود ہی اپنے فیصلے کرنے ہیں یا کئے ہیں تو بار بار امریکا اور یورپ کے در پر روتے کیوں ہو؟ انہیں خطوط کیوں لکھتے ہو؟ ان کے ٹینک اور جہاز پر اتراتے کیوں ہو؟ اگر تم سچے ہو تو یہ بتاو کہ اس مشترکہ اجلاس کو آئین کے جس مادہ کے تحت تم نے بلایا تھا اور بار بار اپنے خطاب میں اس کا حوالہ بھی دیتے رہے اس آئین کا خالق اور موجد کون ہے؟ یہ آئین کہاں تشکیل ہوا ہے؟ اس آئین کی صناعت میں افغانستان کے کتنے دینی علماء،ماہرین قانون اور سیاستدانوں نے حصہ لیا ہے؟ آئین سازی کے کس مرحلہ میں بشمول تمھارے کس افغان کو دعوت دی گئی تھی؟ تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین تک تخلیق یورپ اور امریکا میں ہوئی اور اس کی کاپی تمھیں پکڑا دی گئی؟ تم جس محل میں بیٹھے مشترکہ اجلاس سے خطاب کررہے ہو اس محل کا تعین کس نے کیا ہے؟ اس محل پر پیسہ کس کا خرچ ہوا ہے؟ اس محل کے چوکیداروں اور بھاورچیوں تک کی تنخواہ کون دیتا ہے؟ تم جس گھر میں رہتے ہو اس گھر کی زیب وزینت کس کی مرہونِ منت ہے؟ اور تو اور تم جو کھانا کھاتے ہو اس کا خرچہ کون بھرتا ہے؟ کیا تم نے اسی خطاب میں یہ اعتراف نہیں کیا کہ امریکی افواج ضرور نکل گئی ہیں مگر ان کی مالی امداد ہمارے ساتھ ہی ہیں؟ اگر صورتحال اس طرح ہے اور یقینی طور پر اس طرح ہے تو پھر کس منہ سے تم طالبان کو الزام دیتے ہو؟ وہ طالبان جن پر آج تک تم الزام کے علاوہ ثبوت کبھی پیش نہ کرسکے ہوـ باوجودیکہ طاقت بھی تمھارے پاس تھی اور ذرائع ابلاغ بھی ـ میڈیا پر تمھارا طوطی بولتا تھاـ تم بزور بازو ہر طرح کی الزام تراشی کرتے تھے مگر کبھی دنیا کو یہ باور دلائل کی بنیاد پر نہ کراسکے آخر کیوں؟ اس لئے کہ طالبان اس ملک کے حقیقی فرزند اور اس ملک کی آزادی اور حریت وبقا کے لئے لڑ رہے ہیں ـ ان کا اختیار قوم کا اختیار اور فیصلہ قوم ہی کا فیصلہ ہےـ وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو اس ملک کے باسی چاہتے ہیں ـ اسی لئے وہ اپنی جدوجہد میں کامیاب رہے ہیں اور کامیابی ان کے قدم چومے گی ان شاءاللہ ـ